ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2017 |
اكستان |
|
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جس طرح حکم ِنماز کی تعمیل کرتے تھے وہ انتشار فی الارض (زمین میں پھیل پڑے) اور ابتغاء فضل اللہ (اللہ کا فضل یعنی منفعت حاصل کرنے ) کے حکم کی بھی تعمیل کرتے تھے چنانچہ کچھ صحابہ وہ تھے جن کی شان یہ تھی کہ رات کویادِ خدا اور نمازِ تہجد میں کھڑے رہتے تھے اور گزر اَوقات کے لیے دن کو لکڑیاں چنتے تھے۔ (بخاری شریف ص ٥٨٦) حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : ''ایسا ہوتا تھا کہ آنحضرت ۖ نے ہمیں صدقہ (خاص چندہ) کا حکم دیا توہم منڈی میں پہنچ کر پلہ داری کرتے، ایک مُدیا دو مُد (مُد دور طل کا یعنی ستر تولہ کا) جو کچھ مزدوری ملتی وہ ہم چندہ میں پیش کر دیتے۔ (بخاری شریف ص ١٩٠) آنحضرت ۖ کی عمر شریف دس بارہ سال کی تھی جب آ پ اُجرت پربکریاں چرایا کرتے تھے۔ (بخاری شریف ص ٣٠١) مدینہ طیبہ کے حضراتِ انصار رضی اللہ عنہم کاشتکار تھے اُن میں زیادہ تر وہ تھے کہ خود ہی کھیت کا تمام کام کرتے تھے ۔(بخاری شریف ص ٢٧٨) حضرات ِ مہاجرین جو کہ مکہ معظمہ سے مدینہ آئے تھے زیادہ تر تجارت پیشہ تھے ، چل پھر کر اپنا کاروبار کیا کرتے تھے ۔(بخاری شریف ص ٢٧٤، ص ٢٧٨)تجارت اور تاجر : تجارت باہمی تعاون کی ایک صورت ہے کیونکہ ایک گھرستی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ غلہ خریدنے کے لیے گاؤں میں کاشتکار کے پاس جائے اور گوشت کی ضرورت ہوتو خود بکری ذبح کرے کپڑا خریدنے کے لیے بُنکر کے پاس پہنچے اور دوا میں گل ِبنفشہ یا گائو زبان کی ضرورت ہو تو وہ جنگل میں جاکر اِن دواؤں کوتلاش کرے، دوکانداریہ خدمت انجام دیتا ہے کہ اِن چیزوں کوفراہم کرتا ہے اور ضرورت مند کو قیمت لے کر ضرورت کی چیز دے دے دیتا ہے، تاجر اگر اپنی حیثیت کو صحیح طورپر پہچانتا ہے تو اُس میں تعاون کا جذبہ ہونا چاہیے اور جس طرح اپنے نفع کا طلبگار ہووہ خریدار کا بھی خیرخواہ اور