قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
دارالعلوم دل کے تڑپنے کا نام ہے دارالعلوم روح کے جلنے کا نام ہے جب تک دل میں تڑپ نہ ہو علم کا مزہ نہیں ہے۔ علم کامزہ جب ہے جب حق تعالیٰ کی محبت کا درد عطا ہو،اور یہ درد سینۂ اولیاء سے ملتا ہے،یہ درد کتابوں سے نہیں ملتا۔حاجی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے امام بیہقی تھے، وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اے علمائے دین! تم نے جو کچھ کتابوں میں پڑھ لیا سو پڑھ لیا، اب جاؤاللہ تعالیٰ کی محبت کا درد حاصل کرو، امّا نورِ باطن از سینۂ دُرویشاں بایدِ جست،نبی کا علم تم نے مدرسے میں پالیا، مگر نبی کے دردِ دل کو کہاں سے لاؤگے؟ یہ اولیاء کے سینوں سے ملے گا، اِسے دُرویشوں کے سینوں سے حاصل کرو۔ جسے روحانی موتیا ہوتا ہے اسے اپنے شیخ کا حسن نظر نہیں آتا۔ایک بیماری ہوتی ہے جس میں آنکھوں میں پانی اُتر آتا ہے، اسے موتیا کہتے ہیں، جب تک اس کا آپریشن نہ ہو کچھ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح جس کی باطنی نظر میں موتیا اُتر آتا ہے اسے بھی اپنے شیخ کا پتا نہیں چلتا کہ میرے شیخ کی روح کو اللہ تعالیٰ نے کس مقام سے نوازا ہے۔ یہاں تک کہ بیٹوں نے باپ کو نہیں پہچانا، من حیث العبد تو پہچانا کہ یہ میرے ابا ہیں لیکن حق تعالیٰ کے دردِ دل اور اللہ کی محبت کا جو درد اس کو عطا ہوتا ہے اس کے لیے دوسری بینائی کی ضرورت ہوتی ہے، محض چشمِ بشریت کافی نہیں ہوتی کہ میں آپ کا بیٹا ہوں، اس کے لیے چشمِ روحانیت چاہیے، دل میں آنکھیں ہونی چاہئیں۔ بس اتنا اشارہ کافی ہے، اس سے زیادہ آگے میں کچھ ظاہر نہیں کرسکتا، یہ میں نے حدودِ آدابِِ بندگی کی رعایت کرتے ہوئے آپ کو کچھ اشارے دے دیے۔ دعاکرو اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ والا بنادے۔ اور اپنی رحمت سے ہم سب کو اپنے اولیاء کا دردِ دل نصیب فرمادے اور ہم سب کو اتباع سنت اور شریعت کے موافق بنادے۔ اللہ تعالیٰ اختر کی زبان سے اور میرے دوستوں کی زبان سے سارے عالم میں زلزلہ، غلغلہ، دمدمہ مچادے۔ اپنی محبت کی نشریات کے لیے اختر کو، اس کی اولاد کو، اس کے احباب کو قبول فرمالے، سارے عالم میں اسفار کی طاقت عطا فرما دے، اور ایک گروہِ عاشقاں عطا فرما دے کہ اختر جہاں جائے یہ گروہِ عاشقاں اختر کے ساتھ ہو کیوں کہ اکیلے دل گھبراتا ہے، آپ دوستوں کی ملاقات کو میں نعمتِ عظمیٰ سمجھتاہوں ۔