قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
بات کی نسبت اللہ کی طرف کرو، بُرائی کی نسبت مت کرو۔یہ ادب بزرگوں سے سیکھا جاتا ہے۔ میں نے اپنے شیخ کو دیکھا کہ مکہ شریف میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے حضرت والا مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی دامت برکاتہم دونوں بزرگ مکہ شریف میں تھے کہ ایک شخص نے مولانا شاہ ابرار الحق صاحب سے کہا کہ مولانا محمد احمد صاحب بھی آپ کے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔ حضرت نے فوراً فرمایا کہ نہیں مولانا میرے ساتھ نہیں آئے، میں مولانا کے ساتھ آیا ہوں۔ کیوں کہ حضرت مولانا محمد احمد صاحب عمر میں بھی بڑے تھے اور میرے شیخ نے ان کو اپنا مربی اور مرشد بھی بنایا تھا۔ بتائیے!بغیر صحبت ِاہل اللہ کے یہ عقل کہاں سے آتی؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، ان سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہیں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں؟ صحابہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جو جواب عطا فرمایا ھٰذَا أَجَلُّ مِنْ مَنَاقِبِہٖ یہ ان کی منقبت میں بہت ہی جلیل اور عظیم تر عنوان ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں بڑا نہیں ہوں، ھُوَ اَکْبَرُ بڑے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ وَ أَنَا أَسَنُّ عمر میری زیادہ ہے۔یہاں اپنے لیے بڑائی کی نسبت ہی نہیں ملتی۔ انہوں نے ھُوَ أ َ کْبَرُ نُبُوَّتًا وَ اَنَا اَکْبَرُ سِنًّا نہیں فرمایا یعنی وہ نبوت میں بڑے ہیں اور میں عمر میں بڑا ہوں، اپنی بڑائی کی لغت ہی استعمال نہیں کی،یہ ہے کمالِ ادب کہ اپنے کلام میں بڑائی کی لغت ہی نہیں آنے دی،فرمایا ھُوَ اَکْبَرُ بڑے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وَ أَنَا أَسَنُّ عمر میری زیادہ ہے۔ أَسَنُّ کا ترجمہ انگریزی میں یہی ہے کہ میں عمر میں سینئر ہوں۔ حضرت حمزہ کی حضرت جبرئیل کو دیکھنے کی خواہش حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں دو سال بڑے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے چچا حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ چار سال بڑے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حمزہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اے میرے پیارے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)! میں آپ پر فدا ہوں، مجھے بھی جبرئیل علیہ السلام کی زیارت کرادیں۔ خصائص الکبریٰ جلد نمبر ۱ میں یہ واقعہ لکھا ہے جس کے مصنف مولانا جلال الدین