قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
سنتے رہتے ہیں لیکن سوچیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ کیسا ہوگا؟ جب ان کے غلاموں کے وعظ میں اثر ہے تو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ کیسا پُر اثر ہوگا اور وہ بھی اتنا مختصر یعنی صرف پانچ سیکنڈ کا۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ ڈاکٹر ایک سیکنڈ میں انجکشن لگادیتا ہے اور ایک سو پانچ بخار اٹھانوے ہوجاتا ہے۔ آدابِ گفتگو یہ پیغمبر کا وعظ ہے اَمْلِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ اپنی زبان پر مالکانہ حق رکھو، پہلے سوچو پھر بولو، پہلے سوچو کہ یہ بولنا میرے لیے مناسب ہے یا نہیں؟ اپنے شیخ سے بولنا مناسب ہے یا نہیں؟ اپنے استاد سے بولنا مناسب ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرو کہ یہ بولنا مناسب ہے یا نہیں؟ زبان کہاں استعمال کی جائے اور کہاں استعمال نہ کی جائے، یہی چیز بزرگوں سے سیکھی جاتی ہے۔ ایک بزرگ کے منہ سے صرف اتنا نکل گیاکہ اے اللہ! آج آپ نے بڑے موقع سے بارش کی۔ فوراً آسمان سے ڈانٹ پڑی کہ او بے ادب، میں بے موقع بارش کب کرتا ہوں؟ میرے مقبول بندوں میں ہوکر بولنے کا سلیقہ سیکھو۔ اگر کوئی اپنی اماں سے کہے کہ او میرے ابا کی بیوی مجھ کو چائے پلاؤ۔ تو ماں کیا کہے گی؟ میں تیری کیا ہوں ؟ کیا تیری ماں نہیں ہوں جو تو مجھے ابا کی بیوی کہتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میں نے کچھ ایسے لٹریچر پڑھے ہیں جن سے مجھے حق گوئی آگئی ہے،اب میں حق بات کروں گا، کیا آپ میرے باپ کی بیوی نہیں ہیں؟ تو اماں اسے چپل سے ٹھیک کرے گی، چپل نکال کر ایک لگائے گی اور کہے گی کہ آج چپلی کباب سے ناشتہ کرو۔ کیا حق بات کی دائرۂ ادب سے خروج کی اجازت ہے؟ حق کہو مگر ادب سے کہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا وَ اِذَا مَرِضۡتُ فَہُوَ یَشۡفِیۡنِ 5؎ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو میرا اللہ مجھے شفادیتا ہے۔ کیا اللہ بیماری کا خالق نہیں ہے؟ مگر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بیمار کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ ایک عیب کی بات ہے۔ اس لیے اچھی _____________________________________________ 5؎الشعراء:80