قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ 10؎ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لفظ رَبُّ کیوں نازل کیا فرمایا کہ میں عرش عظیم کا رب ہوں، وَ ہُوَمَالِکُ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ کیوں نازل نہیں فرمایا کہ میں عرشِ عظیم کا مالک ہوں۔اب اس کا جواب سن لیجیے۔قرآنِ پاک میں ہے اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ اللہ تعالیٰ سارے عالم کے رب ہیں،تو عرش بھی اس عالم کاجز ہے یا نہیں؟ اور دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ عرشِ عظیم ہی سے سارے عالم کی پرورش فرماتے ہیں،عرشِ عظیم مجاری قضاء ہے، سارے فیصلے وہیں سے ہوتے ہیں، غریبی کے، امیری کے، بیماری کے، تندرستی کے، عزت کے، ذلت کے، ولایت کے اور فسق و فجور کے، فاسقوں کو اپنا ولی بنانے کے فیصلے بھی وہیں سےہوتے ہیں،سارے عالم کی مخلوقات کی ربوبیت کے احکام وہیں سے اترتے ہیں، وہ مجاری قضاء ہے۔ حَسۡبِیَ اللہُ ۫ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ کی دعا کی برکت سے بندے کا رابطہ وہاں سے ہوگیا جہاں پورے عالم کے فیصلے ہوتے ہیں،اس دعا کی برکت سے اللہ اپنے بندےکی دنیا و آخرت کے سب غم اپنے ذمے لے لیتا ہے کہ جب تم نے مجاری قضاء سے رابطہ کرلیا ہے جہاں سے میں فیصلہ جاری کرتا ہوں، جب تم نے ہم سے رابطہ کرلیا تو پھر اب تم فکر نہ کرو، کیوں کہ ہم تمہاری دنیا و آخرت دونوں بنادیں گے۔ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ چوں کہ سارے عالم کی ربوبیت کے فیصلے اللہ ہی کرتے ہیں اسی لیے اس کی دنیا و آخرت بن جاتی ہے، مگر اس دعا میں یہ بھی ہے کہ حَسۡبِیَ اللہُ مجھے میرا اللہ ہی کافی ہے، لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ان کے سوا ہمارا ہے ہی کون ؟ لہٰذا اس دعا کو صرف زبان ہی سے ادا نہیں کرنا بلکہ عملی طور پر بھی غیر اللہ سے دل نہ لگانا، یہ سمجھ لو کہ اس دعا میں یہ شرطِ خفیہ ہے، اَلشَّرْطُ الْمَخْفِیْ ہے کہ اللہ ہی کو اپنا سب کچھ سمجھنا اور غیر اللہ سے دل نہ لگانا۔ قلبِ عارف کی آہ و فغاں (دورانِ بیان ایک صاحب سامنے عمارت کو دیکھنے لگے تو حضرت والا نے ان سے تنبیہاً فرمایا کہ( اِدھر اُدھر مت دیکھو،اگر میرےپاس رہنا ہے تو مجھ کو دیکھو، جب میں تقریر