قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
کردے جس نے بدنظری کی ہے۔ جو اپنی حلال بیوی کو چھوڑ کر حرام نظریں مارتا رہتا ہے۔کیا اسے نبی کی بددعا سے نہیں ڈرنا چاہیے؟جیسے کہتے ہیں کہ صاحب اس کو پیر کی بددعا لگ گئی ہے۔ارے پیر کیا چیز ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کے سامنے۔ اور نظر بازی سے ملنا جلنا بھی کچھ نہیں ہے، یہ عمل بالکل احمقانہ ہے۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ ہر گناہ کا سبب بے وقوفی اور حماقت ہے کیوں کہ بڑی طاقت سے ٹکر لینے والااحمق اور بے وقوف ہے ۔ خاص کر بدنظری سے کچھ ملتا بھی نہیں ہے، نہ کچھ پاتا ہے اور نہ کچھ کرتا ہے، خالی دیکھ دیکھ کر للچاتا ہے، تڑپتا ہے،کلستا ہے اور ہائے ہائے کرتا ہے۔ حضرت تھانوی کی حفاظتِ نظر حکیم الامت کتنے سنجیدہ تھے مگر ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک اسٹیشن پر میری ریل کے سامنے ایک ریل آکر کھڑی ہوگئی اور زنانہ ڈبہ سامنے آگیا،میرا معمول ہے کہ جب دوسری ریل برابر والی پٹڑی پر آتی ہے تو میں کسی ڈبے کو نہیں دیکھتا کیوں کہ ممکن ہے کہ زنانہ ڈبہ میرے ڈبے کے سامنے آجائے،ممکن ہے کہ اس میں کوئی عورت نہایت حسین ہو اور ممکن ہے کہ اس پرنظر پڑجانے سے پھر میں ہٹا نہ سکوں۔ دیکھا آپ نے حکیم الامت نے کتنے ممکن لگائے، اپنے تقویٰ کی حفاظت کے لیے کتنے احتمالات قائم کیے۔ آہ! تین ممکن لگاکر اپنا معاملہ بنالیا۔ بدنظری پر حضرت تھانوی کا ایک قصہ حکیم الامت نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میری ریل کے سامنے ایک دوسری ریل آکر کھڑی ہوئی اور زنانہ ڈبہ سامنے تھا، میری ریل میں ایک نوجوان بدنظری کا مریض بار بار زنانہ ڈبے میں دیکھ رہا تھا،اس میں پنجاب کا ایک جوڑا تھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، شوہر بھی بہت حسین تھا اور بیوی بھی بہت حسین تھی ؎ڈوبیں گے ہم جہاں پر اُبھریں گے ہم وہیں سے جیسے کہ مل رہا ہو کوئی حسیں حسیں سے