قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
وعظ در شاہی مسجد لاہور اَلْحَمْدُلِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ دین کے احکام میں سماعت اور اطاعت کا ربط بعض حضرات مقامِ سَمِعْنَا پر تو ہوتے ہیں مگر اَطَعْنَا کی سنت ادا نہیں کرتے یعنی جو کچھ سنتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے ۔ صحابہ کی دو سنتیں ہیں سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا یعنی ہم نے سنا اور ہم فرماں برداری کریں گے، اس بات پر عمل بھی کریں گے۔آپ سب بھی آج نیت کرلیجیے،بلکہ ہمیشہ یہ نیت کیجیے کہ سنیں گے اور عمل کریں گے تاکہ صحابہ کی دو سنتیں ادا ہوجائیں سَمِعْنَا کی بھی اور اَطَعْنَا کی بھی۔ سَمِعْنَا یعنی سننے کا تعلق کان سے ہے، یہ جزوی عبادت ہے،آپ کے جسم کے ایک جز یعنی کان کی عبادت ہے، اور اَطَعْنَا کُلی عبادت ہے، سر سے پیر تک سارے اعضا عبادت میں مشغول ہوتے ہیں۔ جو لوگ کلی عبادت کی نیت سے جزوی عبادت کرکے کلی عبادت میں مشغول ہوتے ہیں بتائیے ان کا درجہ کتنا بڑا ہوگا ۔ لہٰذا آپ سب نیت کیا کریں کہ جب کبھی دین کی بات سنیں تو سننے کے بعد اس پر عمل کرنے کا حوصلہ و ہمت کی بھی اللہ تعالیٰ سے درخواست کیجیے ورنہ جو سننا بغیر عمل کی نیت سے ہوتا ہے وہ کافروں کی مشابہت ہے کیوں کہ منافقین کہتے تھے سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا ہم نبی کی بات سن تو رہے ہیں مگر اس کو مانیں گے نہیں،اس پر عمل نہیں کریں گے۔ جو لوگ دین کی بات سن کر اس پر عمل نہیں کرتے تو خدشہ ہے کہ کہیں سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا میں داخل نہ ہوجائیں اور سنتِ صحابہ سے محروم ہو جائیں۔ یہ بتاؤ گناہ کرنے پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے یا غضب؟ تو کیا عقل میں بھوسہ بھرا ہوا ہے ، گوبر بھرا ہوا ہے جو گناہ پر جرأ ت کرتے ہو؟جب کسی گناہ کا تقاضا ہو تو فوراً اپنے نفس سے پوچھو کہ جتنی دیر تو گناہ میں مشغول ہوگا اتنی دیر خدا کی رحمت میں رہے گا یا غضب میں ؟ اس سے خود سوال کریں۔ جب آپ کا دل فتویٰ دے دے کہ اللہ کے غضب میں رہو