قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
پیش لفظ مارچ ۲۰۰۰ءمیں عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لاہور کا سفر فرمایا۔ ۲۰ ذوالحجہ ۱۴۲۰ھ مطابق ۲۶ مارچ ۲۰۰۰ء اتوار کا دن حضرت والا کے اس سفر کا ایک عجیب و غریب دن تھا۔اس روز حضرت والا کی پے در پے متعدد کرامات ظاہر ہوئیں اور اس دن حضرت والا نے اپنے رازِ دردِ دل کا عجیب انداز سے اظہار فرمایا۔ حضرت والا کے اس سفر کے دوران بنگلہ دیش سے حضرت والا کے خلفائے کرام مفتی روح الامین صاحب،مولانا اسماعیل کشور گنجی صاحب،مولانا عبد المتین صاحب، مفتی جعفر احمد صاحب، قاضی دلاور صاحب اور دیگر احباب حضرت والا کی صحبت سےمستفیض ہونے کراچی خانقاہ پہنچے اور یہاں سے حضرت والا کے لختِ جگر،نورِ چشم حضرت مولانا محمد مظہر صاحب مدظلہ العالی کے ساتھ لاہور حاضر ہوئے۔ بنگلہ دیش کے ان احباب میں بعض ایسے نئے مرید بھی تھے جو بزرگانِ دین کے مزارات پر حاضری کو تصوف کا اہم و لازمی جزو سمجھتے تھے، لیکن الحمد للہ! بعد میں حضرت والاکی صحبت کی برکت سے متبع شریعت و سنت ہوگئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے لاہور میں حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جانے کا ارادہ ظاہر کیا جس پر حضرت والا نے فرمایا کہ میں ان کو خود اپنے ساتھ لے جاؤں گا، کہیں یہ وہاں ہونے والی بدعات میں شریک نہ ہوجائیں لہٰذا اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہاں ایسے وقت جائیں کہ اس وقت بدعات وغیرہ شروع نہ ہوتی ہوں۔ حضرت والا نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میں اپنے دو مشایخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کے ساتھ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جاچکا ہوں۔ حضرت والا کے استفسار پر لاہور کے احباب نے بتایا کہ فجر کے فوراً بعد مزار پر بدعات کا سلسلہ شروع