قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
ہوجائے، ہمارے شیخ نے بھی اس کو سنا ہے۔ یَا مُغْنِیُ کے تین معنیٰ ہیں، ان میں سے ایک معنیٰ ہے اے غنی کرنے والے یعنی ہم کو خوب پیسہ دے دے، پیسہ ہاتھ میں بھی ہو، جیب میں بھی ہو، صندوق میں بھی ہو، بیوی کے پاس بھی ہو، اماں کے پاس بھی ہو مگر دل میں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی محبت دنیا کی محبت پر غالب ہو مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جملہ میں نے خود سنا کہ مال کو ہاتھ میں رکھو، جیب میں رکھو، صندوق میں رکھو اور جہاں بھی حفاظت سے رہے رکھو، مگر دل میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ دل اللہ کا گھر ہے، جس کا گھر ہے اس میں وہی رہے۔ دل دنیا کا گھر نہیں ہے، مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا گھر ہے، کاروبار بھی ہو، کار بھی ہو مگر دل میں ہروقت یار ہو یعنی خدائے تعالیٰ کی یاد سے غفلت نہ ہو۔ کام کیجیے، نوٹ کی گڈیاں بھی گنیے، گاہک آیا فرنیچر پیک کرکے اسے دیا اور پیسہ گنا، نوٹ کی گڈیاں گنو مگر ہاتھ سے گنو، دل سے نہ گنو، دل سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ آج مال بک گیا ہے اور پیسہ بھی مل گیا ہے۔ دل میں اس ہی کا خیال رہے، ادنیٰ سا خیال کافی ہے،خیال کا اتنا غلبہ کہ جس سے نوٹ کی گڈی گن نہ سکے اور نوٹ ادھر ادھر ہوجائیں اور بے ہوش پڑے ہوئے ہیں، غرق ہیں یادِ الٰہی میں، اتنا غرق ہونا جائز نہیں ہے۔ اب یادِ الٰہی کتنی ہو؟ اس کی مقدار بھی سن لو۔ کوئی کانٹا چبھے اور اندر ہی ٹوٹ جائے، اسی کا نام ہے دردِ محبت، بریانی کھاؤ گے تب بھی اس کانٹے کا درد یاد رہےگا، بیوی سے بات کروگے ، نوٹ کی گڈیاں بھی گنوگے لیکن وہ درد یاد رہے گا ۔ اسی کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎شکر ہے دردِ دل مستقل ہوگیاہے اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا نسبتِ الٰہیہ دائمی تعلق مع اللہ کانام ہے یہ کیا درد ہے کہ ملتزم پر روئے اور اپنے ملکوں میں آکر زِنا اور بدکاریوں میں مبتلا ہوگئے، جھوٹ بول دیا، غیبت کردی، ذرا سی دیر میں کچھ اور ذرا سی دیر میں کچھ۔ حضرت