قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
ڈش نہیں چھوڑتے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ کی وفاداری سے بھی جڑے رہو۔ اگر دس دن کھانا نہ ملے تو کوئی گناہ کرسکتا ہے؟جس مالک کے رزق بند کردینے سے ہم کو گناہ کی طاقت نہ رہے اس مالک کا رزق کھاکر، طاقتِ گناہ ہوتے ہوئے بھی گناہ نہ کرنے کا نام ہی تقویٰ ہے۔ تقویٰ اس کا نام نہیں ہے کہ کوئی دوا کافور وغیرہ کھالی اور ہیجڑے و مخنث ہوگئے۔ صحابہ نے اجازت مانگی تھی کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم مخنث ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا ہر گز ایسا نہ کرو، یہ جائز نہیں ہے۔ تقویٰ نام ہے کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی طاقتِ گناہ بھی ہو، تقاضائے گناہ بھی ہو پھر نفس کے گھوڑے کی لگام کَسے رہو، اسے گناہوں کے گڑھے میں گرنے نہ دو،اسی کانام تقویٰ ہے۔ میرے شیخ ثانی مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے کتنی عمدہ مثال دی کہ جون کا مہینہ ہے اور روزہ رکھےہوئے ہیں، رمضان جون میں آگیا، لُو چل رہی ہےاور زبان خشک کانٹا ہے۔ اب فریج کھولا تو دل چاہا کہ یخ پانی کی بوتل کی بوتل پی لوں مگر ایک قطرہ بھی نہ پیا، بس اسی کو پیا ملتا ہے یعنی مولی ٰ ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرشتوں کو متقی نہیں کہا جاتا، فرشتوں کو معصوم کہا جاتا ہے، متقی اس لیے نہیں کہا جاتا کیوں کہ ان کے اندر تقاضائے گناہ نہیں ہیں۔ ہم غلاموں اور مٹی کے انسانوں کو اللہ نے یہ خصوصیت دی ہے کہ ہمیں تقاضائے معصیت دے دیے فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا ہمارے اندر نافرمانی کا مادہ بھی رکھ دیا وَ تَقۡوٰىہَا اور اس سے بچنے کی طاقت بھی دے دی کہ گناہ کرنے کا تقاضا تو پیدا ہو مگر تم اللہ کو دیکھتے رہو کہ اللہ کیا کہہ رہے ہیں۔ شرم و حیا گناہ کی تاریخ رقم نہیں کرنے دیتی اب میں ایک مثال دیتا ہوں جو اس وقت اللہ کے فضل سے دل میں آگئی ہے،اتنی پیاری مثال دے رہا ہوں کہ واللہ!اگر ذرا بھی حیا اور شرم ہو تو آج کی تاریخ سے گناہ نہیں کروگے۔ ایک بچےکے باپ نے اسے سکھایا ہوا تھا کہ بیٹا کوئی چیز نہیں لیا کرو جب تک ماں باپ سے اجازت نہ لے لو، کیوں کہ خود لوگے تو لوگ تم کو ذلیل سمجھیں گے، معاشرہ ذلیل سمجھے گا، لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ بچہ تربیت یافتہ نہیں ہے، اس میں تہذیب نہیں ہے، جو چاہے لے لیتا