قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
خطاؤں پر رونے کی پہلی قسم اللہ کےمزاج کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون بتاسکتا ہے۔ اب نمبر ایک طریقہ سن لیں، میرے مرشدِ اوّل شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے آنسو نکلے تو انہوں نے دونوں ہتھیلیوں پر مل کر چہرے اور داڑھی پر پھیر لیے اور فرمایا کہ میں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو یہی کرتے دیکھا ہے۔ پھر میں نے حدیث دیکھی کہ اللہ کے راستے میں جو آنسو جہاں لگ جائیں گے دوزخ کی آگ وہاں حرام ہوجائے گی۔ لہٰذا ان آنسوؤں کو ایسے مت ضایع کرو، کپڑے سے مت پونچھو، آنسوؤں کوہتھیلی سے ملو اور پھر سارے چہرے پر ہتھیلی مل لو۔ میں نے اپنے شیخ کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے اور انہوں نے اپنے شیخ کو دیکھا، دو پشت کی روایت کافی ہے،یعنی حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایسے ہی کرتے تھے۔ جہاں جہاں خوفِ خدا کے، محبتِ خدا کے یہ آنسو لگ جائیں گے وہاں دوزخ کی آگ حرام ہوجائے گی، اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہو لیکن پھیلانے سے یہ آنسو سارے چہرے پر پھیل جائیں گے۔ اب ایک سوال اور ایک جواب۔ جہاں جہاں یہ آنسو لگے ہیں اگر اللہ نے جسم کا اتنا حصہ دوزخ پر حرام کردیا اور جنت میں ڈال دیا تو باقی حصے کا کیا ہوگا؟ باقی جسم کہاں جائے گا؟ اس پر حکیم الامت کی تقریر سنو۔ فرمایا کہ ایک ہندو راجا مر گیا، اس کا بیٹا ابھی ہوشیار نہیں تھا، خاندان والوں نے ریاست کو اپنے قبضے میں لانے کی کوشش کی ، وزیروں نے کہا کہ ہم نے اس کے باپ کا نمک کھایا ہے، لہٰذا اس سے کہا کہ بیٹا دِلّی چلو، عالمگیر سے سفارش کی درخواست کرتے ہیں۔ اب وہ لڑکا دہلی کے قلعے تک گیا، راستے بھر وزیر اس کو خوب آدابِ شاہی سکھاتے رہے کہ عالمگیر بادشاہ یہ پوچھیں تو یہ کہنا، یہ پوچھیں تو یہ کہنا۔ جب قلعہ بالکل نزدیک آگیا تو اس لڑکے نے وزیروں سے کہا کہ آپ لوگوں نے راستے بھر جو سکھایا ہے اگر بادشاہ اس کے علاوہ کچھ پوچھے گا تو کیا جواب دوں گا؟وزیروں نے کہا کہ تم بہت چالاک معلوم ہوتے ہو، اب ہمیں تم کو پڑھانے کی ضرورت نہیں۔ جب یہ قلعہ پہنچے تو عالمگیر تالاب میں غسل کررہے تھے۔اس لڑکے نے بتایا کہ میرا باپ مر گیا ہے،میری ریاست پر خاندان والے قبضہ کرنا چاہ