قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ جب اس کی تربیت ہوگئی تو اب یہ رشتے داروں کے یہاں گیا ، کسی نے کہا بیٹا یہ لو ، اب یہ ہاتھ نہیں بڑھارہا ہے، اپنے ابا کو دیکھتا ہے، جب باپ نے اشارہ کردیا تو فوراً لے لیا تاکہ دینے والے کو تکلیف نہ ہو،لیکن جب تک اپنے ابا کا حکم نہیں ملا اس وقت تک نہیں لیا۔تو جب ہمارا دل چاہے کہ کسی نمکین لڑکی یا لڑکے کو دیکھ لیں یا اس کے ساتھ کوئی گناہ کرلیں اور وہ بھی راضی ہے تو تم اپنے رب کو، اللہ کو ایک دفعہ اوپر دیکھ لیا کرو۔ آہ! تین چار سال کے معصوم بچوں پر تو تہذیب و تربیت اثر کرجائے اور ہماری داڑھیاں سفید ہوجائیں مگر ہم اپنے رب کی طرف نہ دیکھیں کہ اس وقت مالک کا حکم کیا ہے ؟ بتاؤ کیسی مثال ہے؟ مگر ان مثالوں کا فائدہ عمل پر ہے۔مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎لَا شَجَاعَۃَ یَا فَتٰی قَبْلَ الْحُرُوْبِ سپاہی لاکھ وردی پہن کر شان دکھاتا پھرے، جب تک جنگ میں بہادری نہ دکھائےکوئی اس کی شجاعت کو تسلیم نہیں کرتا ۔جب کوئی حسین شکل سامنے آئے وہاں تقویٰ کی بہادری دکھاؤ کہ میں اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے اپنے قلب میں حرام لذت درآمد کرنے کا کمینہ پن نہیں کرسکتا، میں شریف زادہ ہوں، شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، خاندانی آدمی ہوں۔ ارتکابِ گناہ شرافتِ بندگی کے خلاف ہے ہر مرید خاندانی ہے، جب شیخ سے جڑ گیا تو گروہِ صوفیا میں داخل ہوگیا،اب وہ غیرشریف نہیں ہے، جب سر پر گول ٹوپی آگئی تو اور شریف ہوگیا، جب ایک مٹھی داڑھی بھی آگئی تو اور شریف ہوگیا اور جب کالے بال سفید بالوں میں کنورٹ ہوگئے تواب شرافت اور زیادہ بڑھ گئی۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جب پہلا بال سفید ہوا تو انہوں نے اللہ میاں سے پوچھا کہ اللہ میاں یہ کیا ہورہا ہے،یہ میرے بال سفید کیوں ہورہے ہیں؟ وحیِ الٰہی نازل ہوئی کہ اے ابراہیم تیرے بالوں میں جو سفیدی آرہی ہے ھٰذَا وَقَارُکَ یہ تمہارا وقار ہے، تمہاری وجاہت ہے، تمہیں شرافت اور عزت دی جارہی ہے۔ تو سفید بالوں کے ساتھ عزت فروشی کیسی؟