قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
وعظ بر مقبرہ شاہ جہانگیر اَلْحَمْدُ لِلہِ وَکَفٰی وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اَمَّا بَعْدُ مقصدِ حیات رضائے الٰہی کا حصول ہے زندگی کے اصل مزے اسی نے پائے جس نے زندگی دینے والے پر زندگی فدا کی کیوں کہ وہ مقصدِ زندگی پاگیا۔ اللہ تعالیٰ نے حیات عطا فرماکر مقصدِ حیات قرآنِ پاک میں نازل فرما دیا وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ 9؎ ہم نے تم کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا کیا ہے لہٰذا مجھ کوچھوڑ کر غلط جگہوں میں اِن (In) ہونے کی کوشش نہ کرنا کیوں کہ وہاں تم نجاست اور غلاظت ہی پاؤ گے،ان حسینوں کے چہروں کو بھی مت دیکھو، اگر تم ان کے اندر داخل ہوئے تو تم کو غلاظت اور نجاست ہی ملے گی۔ حسینوں کا یہ حسن امتحان کے لیے ہے، لا الٰہ کی تکمیل کے لیے یہ الٰہ دیے گئے ہیں تاکہ تم ان کی نفی کرو اور مولیٰ کو پاجاؤ۔ لیلاؤں کو اس لیے پیدا کیا کہ لیلیٰ سے نظر کو بچایا اور مولیٰ کو دل میں پایا، لیلیٰ بے کار نہیں پیدا کی گئی ہے، ان ہی سے نظر بچانے کا غم اٹھانے سے مولیٰ ملتا ہے۔ اللہ نے اپنے راستے کی منزل کو کچھ مشکلات میں گھیر دیا ہے، جیسے پھول ہمیشہ کانٹوں میں ملتے ہیں، مولیٰ کا پھول بھی ان ہی لیلاؤں کے چکر سے نکلنے سے ملے گا۔ جگر کے استاد اصغر گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کی محبت کا درد کیسے پایا؟ ؎ہم نے لیا ہے دردِ دل کھو کے بہارِ زندگی ایک گل تر کے واسطے میں نے چمن لُٹادیا بدونِ مجاہدہ حصولِ مولیٰ محال ہے مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اتنا کریم ہے کہ ان پر ایک پھول فداکرو تو پورا چمن اور گلستان دے دیتا ہے، پورا گلشن دے دیتا ہے۔ جب ایک پھول دینے پر اللہ گلستان دیتا _____________________________________________ 9؎الذّٰریٰت:56