قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
گھر کے وسیع ہونے کا مطلب اس حدیث کا دوسرا جز ہے وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ اس کے دو ترجمے ہیں: محدثین نے ایک ترجمہ یہ کیا ہے کہ تم کو اپنا گھر وسیع معلوم ہو یعنی تم انار کلی یا کسی بھی گلی میں بلا ضرورتِ شدیدہ نہ جاؤ، اپنے ہی گھر میں خوش رہو۔ اور دوسرا مفہوم جو حق تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا ہے کہ ہر گناہ سے بچو ورنہ گھر وسیع ہونے کے باوجود تنگ معلوم ہوگا۔ اس کی دلیل بھی بتاؤں گا ان شاء اللہ! بلا دلیل تصوف کی کوئی بات پیش نہیں کروں گا۔ تین صحابہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پچاس دن تک ان سے گفتگو نہیں فرمائی۔ ان کی قلبی کیفیت کو اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتے ہیں کہ میری نظر جن سے بدل جائے ان کے دل کا کیا حال ہوتا ہے؟ ؎جس طرف کو رُخ کیا تو نے گلستاں ہوگیا تو نے رُخ پھیرا جدھر سے وہ بیاباں ہوگیا اللہ ہمیں پیار سے دیکھ لے ہمارا دل گلستاں ہوجائے گا، اللہ کو ایک پھول دو گے تو اللہ پورا گلستاں دے گا، ایک خواہش کا خون کرکے دیکھو اللہ گلستاں دیتا ہے اور اگر تم نے ایک پھول حرام کا حاصل کیا تو گلستاں تو کیا ملتا تم خارستان میں داخل کردیے جاؤ گے، چاروں طرف اللہ کے غضب کے سانچوں میں جینا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ یہ زمین،یہ کائنات اپنی تمام تر وسعت کے باوجود ان صحابہ پر تنگ ہوگئی تھی وَ ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ 6؎ اور وہ اپنی جانوں سے بے زار ہوگئے تھے۔ معلوم ہوا کہ گناہوں کی وجہ سے بڑی چیز بھی تنگ معلوم ہوتی ہے، دنیا اندھیری معلوم ہوتی ہے کیوں کہ تم نے خالق شمس و قمر کو ناراض کردیا۔اب سورج کی روشنی بھی تمہارے دل کو روشن نہیں کرسکتی۔ جو خالق شمس و قمر کو ناراض کرتا ہےاس کے قلب کو یہ آفتاب بھی روشنی نہیں دے سکتا۔ اکبر الٰہ آبادی کا شعر سنیے، کتنا پیارا شعر یاد آیا، جج اکبر الٰہ آبادی نے شمس و قمر کی روشنی کے بارے میں فرمایا ؎ _____________________________________________ 6؎التوبۃ:118