قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو تفسیر جلالین کے مصنف بھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میرے چچا! جبرئیل علیہ السلام کی ملاقات صرف پیغمبر اور نبی ہی کرسکتے ہیں، آپ کی روحانیت میں وہ طاقت نہیں ہے۔ تو گویا انہوں نے بزبانِ حال کہا ؎دکھا جلوہ وہی غارت گر جان حزیں جلوہ تیرے جلوے کے آگے جان کو ہم کیا سمجھتے ہیں یعنی زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ میں مر جاؤں گا، میں اس کے لیے تیار ہوں، بس آپ مجھے جبرئیل علیہ السلام کی زیارت کرادیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جبرئیل علیہ السلام سے وقت لے لوں۔ معلوم ہوا کہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ میں فلاں ڈاکٹر یا فلاں بزرگ سے وقت لے لوں تو وقت لینے کا یہ طریقہ بہت پرانا چلا آرہا ہے۔ اب حطیم میں ملنے کا وقت مقرر ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا حضرت حمزہ کو طے شدہ وقت پر کعبہ شریف میں حطیم کے اندر لے گئے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے آنے سے پہلے ہی ان کی آہٹ اور سرسراہٹ شروع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا ہوشیار ہوجائیں، جبرئیل علیہ السلام آرہے ہیں۔ اب چچا جان شوق سے آنکھ کھولے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں، جیسے ہی حضرت جبرئیل کے پیر پر نظر پڑی،اس کی روایت خود حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کررہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ حضرت جبرئیل کے پیر زمرد کے رنگ کے تھے جسے دیکھتے ہی میں بے ہوش ہوگیا۔وہ سر نہیں دیکھ پائے، اچانک بے ہوش ہوگئے، جب ہوش میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چچا دیکھا آپ نے جبرئیل کو؟ کہا کیا دیکھتے ؎وہ سامنے تھے نظامِ حواس برہم تھا نہ آرزو میں سکت تھی نہ عشق میں دم تھا یعنی ہوش ہی نہیں رہا تھا۔ تو یہ بات پر بات آگئی۔ یہ سب میرے بزرگوں کی دعاؤں کا صدقہ ہے،اختر چالیس سال تک خاموش تھا،چالیس سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے بزرگوں کی دعاؤں سے خاص کر مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کے صدقے میں میری زبان کھولی۔