اصلی پیر کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
منڈاتا ہوں۔ فرمایا کہ بیمار ہی تو ہسپتال جاتا ہے، اللہ والوں کے روحانی ہسپتال میں کو ن جا تا ہے؟ گناہ گار ہی تو جا تے ہیں۔ بس وہ جو نپور سے تھانہ بھون کے لیے نکلے، راستہ میں داڑھی کے تھوڑے تھوڑے بال نکل آئے، حالاں کہ گھر سے داڑھی منڈا کر گئے تھے لیکن راستہ میں بھی تھوڑے تھوڑے بال نکل آئے، بعض لوگوں کے گال بڑے زرخیز ہو تے ہیں یعنی بال جلدی نکل آتے ہیں۔ خیر جب یہ تھانہ بھون پہنچے تو آئینہ میں اپنی شکل دیکھی کہ تھوڑے تھوڑے بال نکل آئے ہیں تو تھانہ بھون کی خانقاہ کے اندر ہی حجام کو بلایا اور داڑھی پر اُسترا چلوادیا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سب دیکھ لیا۔ اب یہ جاکر حضرت تھانوی سے کہنے لگے کہ حضرت مجھے بیعت کر لیجیے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حفیظ صاحب! جب آپ کو بیعت ہونا تھا تو جو تھوڑا تھوڑا نور آ گیا تھا اس کو کیوں صاف کردیا؟ کہنے لگے کہ حضرت آپ حکیم الا مت ہیں اور میں مریض الا مت ہوں، مریض کا فرض ہے کہ حکیم کو اپنی پوری حا لت بیان کر دے۔جو مریداپنے روحانی معالج یعنی اپنے شیخ سے اپنا حال چھپائے گا وہ کبھی شفا نہیں پائے گا، خندق میں گرنے کے بعد جب رُسوا ہوگا تب پتا چلے گا۔ اس لیے مرید پر فرض ہے کہ اپنے مربّی و شیخ سے اپنا سارا حال صحیح صحیح بتائے۔ تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کا یہ فعل یعنی داڑھی منڈانا تو اچھا نہیں ہے مگر اس نے جس طرح یہ کام کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سادہ طبع ہے۔ لہٰذا آپ نے انہیں بیعت کر لیا اور فرمایا کہ جاؤ اللہ اللہ کرو،ذکر اللہ کرو، یہ ٹانک اور وٹا من دیتا ہوں ان شاء اللہ سب حالات درست ہوجا ئیں گے۔ عبدالحفیظ واپس جونپور آگئے۔ ایک سال کے بعد حضرت تھانوی جونپور تشریف لے گئے، میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت تھانوی کے ساتھ تھے، وہاں ایک مجلس میں ایک بڑے میاں نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے مصافحہ کیا تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ یہ بڑے میاں کون ہیں؟ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضرت یہ جونپور کے مشہورآل انڈیا شاعر عبدالحفیظ ہیں جن کا دیوانِ حفیظ ہے۔ تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ پہلے تو یہ بالکل فارغ البال تھے، اب تو ماشاء اﷲ چہرہ پر ِسنت کا باغ لہلہا رہا ہے۔