اصلی پیر کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے خلفاء میں سے تھے۔ ایک بار آل انڈیا مشہور شاعر جگر مرادآبادی نے ان سے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ مسٹر ہیں یعنی انگریزی داں ہیں، ڈپٹی کلکٹر ہیں، لیکن یہ لمبا کرتا، ٹخنوں سے اوپر پاجامہ، سر پر گول ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح یہ سب کہاں سے آیا؟ انہوں نے فرمایا کہ تھانہ بھون میں ایک اللہ والے بزرگ ہیں جن کی صحبتوں سے بہت سے لو گ اللہ کے ولی بن رہے ہیں،آپ بھی جا کر ان سے مل لیں، میں بھی وہیں جاتا ہوں جب ہی میرا یہ حال ہے، میں ان سے بزبانِ حال کہتا ہوں ؎ تُو نے مجھ کو کیا سے کیا شوقِ فراواں کر دیا پہلے جا ں، پھر جانِ جا ں، پھر جا نِ جا ناں کردیا اور خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ شعر کی زبان میں حکیم الا مت رحمۃ اللہ علیہ کو مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں ؎ نقشِ بتاں مٹایا، دکھایا جمالِ حق آنکھوں کو آنکھیں، دل کو مرے دل بنا دیا آہن کو سوزِ دل سے کیا نرم آپ نے ناآشنائے درد کو بِسمل بنا دیا یعنی اے حکیم الامت! میں اللہ کی محبت کے درد سے ناواقف تھا، آپ نے مجھے بِسمل کر دیا، اب میں دن رات اﷲ کے عشق میں تڑپتا ہوں، اللہ کے عشق و محبت کا مزہ لیتا ہوں۔ اﷲتعالیٰ کی محبت میں جنت کا مزہ ملتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت میں تڑپنے سے یہ مت سمجھیے گا جیسے ہارٹ اٹیک والے تڑپتے ہیں، اس میں تو تکلیف ہو تی ہے۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک شعر میں اﷲ کی محبت کے درد کی عجیب شرح فرمائی ہے ؎ شُکر ہے دردِ دل مستقل ہو گیا اب تو شاید مرا دل بھی دل ہو گیا