اصلی پیر کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
لیے مانگ رہا ہوں، اب آدھی رات کو گدڑی پہن کر سلطنت کی حدود سے با ہر نکل گئے۔ جب انسان دیوانہ بنتا ہے تو کیا کیفیت ہو تی ہے ؎ کھینچی جو اک آہ تو زنداں نہیں رہا مارا جو اک ہا تھ تو گریباں نہیں رہا تمام تعلقات اور غیر اللہ کو چھوڑ کر اتنا تیز بھاگے کہ آدھی رات کو حدودِ سلطنت سے با ہر نکل گئے تاکہ کو ئی پہچان نہ لے ورنہ وزیر لو گ ہاتھ جوڑ کر کہتے کہ حضور کہاں جا رہے ہیں۔ لیکن یہ ولی اﷲ اپنے لیے حضور کا لفظ سننا پسند نہیں کر تے کیوں کہ اپنے اللہ کے حضور میں جا رہے ہیں،دنیا والوں کے حضور سے نجات حاصل کرکے اللہ کے حضور میں جا رہے ہیں۔ تو یہ سلطنتِ بلخ چھوڑ کر نیشاپور کے جنگل میں چلے گئے، وہاں دس سال عبا دت کی۔ ایک دن ایک وزیر آیا اور انہیں اس دُرویشانہ حال میں دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ یہ کیسا بےوقوف ملّا ہے، بادشاہت کے مزے چھوڑ کر یہاں ویرانے میں پڑا ہوا ہے، زمین پر نمازیں پڑھ رہا ہے، ساری پیشانی پر مٹی لگی ہوئی ہے۔ سلطان ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ تعالیٰ نے وزیر کے یہ خیالات کشف کردیے۔ کشف بندہ کے اختیار میں نہیں ہوتا کشف بندہ کے اختیار میں نہیں ہوتا، جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں عطا کر دیتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ولی اللہ کو سب معلو م ہوتا ہے،یہ مشرکا نہ عقیدہ ہے، جہالت کا عقیدہ ہے، حرام عقیدہ ہے، اللہ تعالیٰ جب چا ہتے ہیں تو بتا دیتے ہیں۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے قریب کنعان شہر کے کنویں میں تھے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو پتا نہیں تھا کہ میرا بیٹا کہاں ہے، وہ ان کی یاد میں رو رہے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو بتا دیاکہ وہ اس وقت سینکڑوں میل دور مصر میں ہیں۔ یہ عقیدہ اسلامی ہے، یہ عقیدہ صحابہ کا ہے، نبیو ں کا ہےاور قرآن و حدیث کا ہے۔ تو جب ان کو کشف ہوا اس وقت وہ اپنی گدڑی سِی رہے تھے، انہوں نے وزیر کو اپنے پاس بلایا اور اپنی سُوئی دریا میں ڈال دی اور فرمایا کہ اے دریا کی مچھلیو! میری سوئی تلاش کرو۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎