اصلی پیر کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
اور فرماتے ہیں ؎ میں سمجھتا تھا مجھے ان کی طلب ہے اصغرؔ کیا خبر تھی وہی لے لیں گے سراپا مجھ کو ایک اور جگہ فرماتے ہیں ؎ ہمہ تن ہستیِ خوابیدہ مری جا گ اُٹھی ہر بُنِ مُو سے میرے اس نے پکارا مجھ کو جب دنیا والے پکا رتے ہیں تو انسان دوکان سے سنتا ہے، مگر جس کو اللہ جذب کرتے ہیں، جس کو اﷲتعالیٰ اپنا بناتے ہیں،اس کا بال بال محسوس کر تا ہے کہ میرا اللہ مجھے یاد فرمارہاہے ؎ سُن لے اے دوست جب ایا م بھلے آتے ہیں گھا ت ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلا تے ہیں جس کے دن اچھے ہونے والے ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو جسے اللہ والا بنانا ہو تا ہے تو کیا عرض کروں کہ اس کے لیے غیب سے کیسے کیسے انتظا م ہوتے ہیں ؎ حُسن کا انتظام ہو تا ہے عِشق کا یو ں ہی نام ہو تا ہے تارکِ دنیا اور متروکِ دنیا میں فرق تو میں عرض کررہا تھا کہ شاہِ بلخ نے آدھی را ت کوگدڑی پہنی اور محل سے نکل گئے۔ دیکھیے اس کا نام ہے اللہ والا بننا، جس کو دنیا نے لا ت ماری ہو، جس کے پاس کچھ نہ ہو، اس کی فقیر ی کو کیا پوچھتے ہو، وہ تو فقیری پر مجبور ہے، وہ تارکِ دنیا نہیں ہے کیوں کہ اس کے پاس ترک کرنے کے لیے دنیا ہے ہی نہیں، یہ متروکِ دنیا ہے یعنی دنیا نے اسے ترک کیا ہے،اس نے دنیا نہیں چھوڑی، دنیا نے اسے چھوڑا ہے۔ لیکن جس کے پاس دولت و با دشا ہت ہے وہ دنیا پر لا ت ما ر رہا ہے، یہ قیمتی چیز ہے، حقیقت میں یہ تارکِ دنیا ہے۔ تو شاہِ بلخ آدھی رات کو اٹھے، کسی فقیر کو اچھا لباس دے کر اس کی گدڑی لے لی تھی اور اس فقیر کو بتایا نہیں تھا کہ یہ کس