رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
نے ایک مقام پر ایک بلند قبہ دیکھا اور ( تحقیر کے لہجہ میں ) فرمایا : کیا ہے یہ گنبد ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:یہ فلاں انصاری نے بنایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( یہ سن کر ) خاموش رہے اور بات کو دل میں مخفی رکھا یہاں تک کہ گنبد بنانے والا آگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، کئی مرتبہ ایسا ہوا ( یعنی اس نے سلام کیا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ پھیر لیا) یہاں تک کہ اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ کے آثار محسوس کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پھیر لینے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفرت کو معلوم کرلیا، اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے شکایت کی اور کہا:خدا کی قسم! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آپ سے غضب میں پاتا ہوں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادھر تشریف لائے اور تیرے قبہ کو دیکھ کر غضب ناک ہوگئے وہ شخص قبہ کی طرف گیا اور اس کو گرادیا یہاں تک کہ زمین کے برابر کرد یا۔پھر اس واقعہ کے بعد ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ادھر تشریف لے گئے اور قبہ کو نہ پا کر فرمایا: وہ گنبد کیا ہوا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: قبہ بنانے والے نے ہم سے آپ کی نفرت کی شکایت کی،ہم نے اس کو واقعہ سے آگاہ کردیا پس اس نے قبہ کو ڈھادیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار! ہر عمارت اس کے بنانے والے پر وبال ہے ( یعنی موجبِ عذاب ہے ) مگر وہ عمارت جس سے چارہ نہ ہو۔ (یعنی جس کے بغیر زندگی گزارنی ناممکن ہو ) تشریح :محض تفاخر اور تعیش کے لیے عمارت بنانا جو ضرورت سے زائد ہو آخرت کے لیے وبال ہے۔ یہاں جس قبہ کا ذکر ہے وہ دراصل ضروریاتِ زندگی سے زائد تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے لیے ایسے امور کو کب پسند فرماسکتے تھے جو ان کی بلندیٔ مرتبت فی الدین کے منافی ہوں؟ آخرت کے لیے جو عمارتیں بنائی جائیں مثلاً مساجد ، مدارسِ دینیہ وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔؎ ------------------------------