رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ فَاِنَّ لَھَا مِنَ اللہِ طَالِبًا۔ رَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ وَالدَّارَمِیُّ وَالْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ؎ ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اپنے آپ کو ان گناہوں سے بچا جن کو حقیر اور معمولی خیال کیا جاتا ہے اس لیے کہ ان گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مطالبہ کرنے والا بھی ہے ۔ تشریح:چھوٹے گناہ سے غافل نہ رہے اور ان کو معمولی نہ سمجھے کہ چھوٹی چنگاری بڑھتے بڑھتے شعلہ والی آگ بن جاتی ہے ۔ نیز یہ کہ جس گناہ کو چھوٹا اور سہل جانا جاتا ہےاس کی تلافی اور اس سے توبہ کی توفیق نہیں ہوتی۔ پس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ ایک قسم کا عذاب ہے کہ گناہ کو چھوٹا اور سہل سمجھ کر غفلت میں مبتلا رہے۔ نیز یہ سمجھنا چاہیے کہ چھوٹے گناہ پر اگر اصرار کیا جائے تو وہ پھر صغیرہ نہیں رہتا بلکہ کبیرہ ہوجاتا ہے۔ اور اسی سبب سے کبھی حق تعالیٰ کبیرہ گناہ معاف فرماتے ہیں اور کبھی صغیرہ گناہ پر عذاب دیتے ہیں۔ اور واضح ہو کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللہِ اَکۡبَرُ؎ اور حق تعالیٰ کا تھوڑا راضی ہونا بھی تمام کائنات ومافیہا سے افضل واکبر ہے۔ پس جس ذات پاک کی تھوڑی رضا نعمت کے اعتبار سے اکبر ہے تمام چیزوں سے اسی طرح اس کی ناراضی تھوڑی بھی نہایت خطرناک ومضر ہے تمام چیزوں سے۔ 170۔ وَعَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ ابْنِ اَبِیْ مُوْسٰی قَالَ قَالَ لِیْ عَبْدُ اللہِ ابْنُ عُمَرَ ھَلْ تَدْرِیْ مَاقَالَ اَبِیْ لِاَبِیْکَ قَالَ قُلْتُ لَاقَالَ فَاِنَّ اَبِیْ قَالَ لِاَبِیْکَ یَا اَبَا مُوْسٰی ھَلْ یَسُرُّکَ اَنَّ اِسْلَامَنَامَعَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھِجْرَتَنَا مَعَہٗ وَجِھَادَنَا مَعَہٗ وَعَمَلَنَا کُلَّہٗ مَعَہٗ بَرَدَ لَنَا وَاَنَّ کُلَّ عَمَلٍ عَمِلْنَا بَعْدَہٗ نَجَوْنَا مِنْہُ کَفَافًا رَّاْسًا بِرَاْسٍ فَقَالَ اَبُوْکَ لِاَبِیْ لَا وَاللہِ قَدْ جَاھَدْنَا بَعْدَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَلَّیْنَا وَصُمْنَا ------------------------------