رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
اَبُوْ ذَرٍّ یّٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ شَجَرَۃً تُعْضَدُ۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ وَابْنُ مَاجَۃَ ؎ ترجمہ:حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میں جس چیز کو دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے ( یعنی علاماتِ قیامت اور حق تعالیٰ کی صفاتِ قہریہ ) اور جس بات کو میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے ( یعنی احوالِ آخرت کے اسرار اور قیامت کی ہولناکیاں اور عذابِ دوزخ کی شدت )،آسمان آواز بلند کرتا ہے اور اس کو آواز کرنے کا حق ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے!آسمان میں چار انگشت جگہ بھی ایسی نہیں جہاں فرشتے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا سر رکھے سجدہ میں نہ پڑے ہوں ۔ اگر تم کو اس بات کا علم ہوجائے جس کو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنسو اور زیادہ روؤ اور نہ عورتوں سے بستروں پر لذت حاصل کرو اور جنگلوں کی طرف اللہ تعالیٰ سے نالہ وفریاد کرتے ہوئے نکل جاؤ۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد غلبۂ خوف سے فرمایا: کاش! میں کوئی درخت ہوتا جس کو کاٹ ڈالا جاتا۔ تشریح:بعض فرشتے قیام میں ہیں اور بعض رکوع میں ہیں بعض سجدہ میں ہیں۔ اور اس حدیث میں صرف سجدہ کا تذکرہ ہے تو ممکن ہے کہ یہ صورت ایک آسمان کے ساتھ ہو۔ واللہ اعلم حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول کہ کاش میں درخت ہوتا اسی طرح کے اقوال اور بھی اکابر اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کاش میں بکری ہوتا اور ذبح کرکے مجھے کھاجاتے، دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا کاش کہ میں پرندہ ہوتا جہاں چاہتا چلا جاتا اور کچھ احکامِ شریعت اس پرنہیں۔ اور یہ حضرات وہ ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بشارت جنّت کی دی گئی تھی پھر اوروں کو کیا کہیے۔ اگر چہ وعدہ مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، ------------------------------