رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
جانتا کہ میرے ساتھ کیا ( معاملہ ) کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ( معاملہ کیا جائے گا)۔ تشریح:یہ حدیث اس وقت وارد ہوئی جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا جو کبائر مہاجرین صحابہ میں سے تھے،انتقال ہوا اور جنّت البقیع میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کے بعد ان کی پیشانی کا بوسہ دیا اور آنسو بہائے اور بہت عنایات فرمائیں۔ایک عورت نے جو وہاں حاضر تھی کہا کہ اے ابنِ مظعون! بہشت تجھ کو مبارک ہو کہ عاقبت تیری بخیر ہے۔پس آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو زجر وتنبیہ فرمائی کہ غیب کے فیصلوں پر ایسے یقین کے ساتھ دعویٰ کرنا اور پھر رُو برو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ایسی جرأت سے بولنا بے ادبی اور نادانی ہے۔ اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے متعلق یہ فرمانا کہ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا یہ دراصل آپ کا غلبۂ استحضارِ عظمت وکبریائی حق سے راہِ ادب اختیار کرنا ہے اور حقیقت کلام کی مراد نہیں،یا یہ مراد ہو کہ عاقبت کا حال تفصیل کے ساتھ معلوم نہیں اگر چہ مجملاً آپ کو علم تھا کہ عاقبت جملہ انبیاء علیہم السلام کی بخیر ہے، یا مراد یہ ہو کہ میں نہیں جانتا موت سے مروں گا یا قتل سے، اور نہیں جانتا میں کہ تم پر اگلی اُمتوں کی طرح سے عذاب نازل ہوگا یا نہیں۔ اور حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس آیت کے نزول سے قبل ہے:لِیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ؎ اس آیت کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہوا کہ عاقبت بخیر ہے ۔ کَذَا قِیْلَ؎ 155۔ وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُرِضَتْ عَلَیَّ النَّارُ فَرَأَیْتُ فِیْھَا امْرَاَۃً مِّنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ تُعَذَّبُ فِیْ ھِرَّۃٍ لَھَا رَبَطَتْھَا فَلَمْ تُطْعِمْھَا وَلَمْ تَدَعْھَا تَاْکُلَ مِنْ خَشَاشِ الْاَرْضِ حَتّٰی مَاتَتْ جُوْعًاوَّرَأَیْتُ عَمْرَ وابْنَ عَامِرِنِ الْخُزَاعِیَّ یَجُرُّ قُصْبَہٗ فِی النَّارِ وَکَانَ اَوَّلَ مَنْ سَیَّبَ السَّوَائِبَ۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ ؎ ------------------------------