رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عاقل ومحتاط شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو ذلیل اور فرماں بردار کرے اللہ تعالیٰ کے امر کا اور عمل کرے ما بعد موت کے لیے، اور احمق ونادان وہ شخص ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کا غلام ہو اور اللہ تعالیٰ سے بخشش کا آرزو مند ہو۔ تشریح:یعنی بُرے اعمال کےساتھ حق تعالیٰ سے یہ نیک اُمید رکھتا ہے کہ میرا رب کریم اور غفور ہے اور بُرائی کو ترک نہیں کرتا یہ سخت دھوکا ہے کہ حق تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّ رَحۡمَتَ اللہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ؎۔ تحقیق کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کاروں اور صالحین کے قریب ہے۔ اور ارشاد ہے :اَنَا الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ وَاَنَّ عَذَابِیۡ ہُوَ الۡعَذَابُ الۡاَلِیۡمُ؎ میں غفور ورحیم ہوں اور بلا شبہ میرا عذاب بھی درد ناک عذاب ہے۔ حاصل یہ کہ نیک عمل کرکے اُمیدوار رہے اور قبولیت کی دعا کرتا رہے اور ڈرتا رہے اس کے عذاب سے۔ علماء ومشایخ فرماتے ہیں کہ گناہ پر دلیر رہنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سہارے پر یہ شیطان کا دھوکا ہے۔ صفتِ رزاقیت پر اعتماد کرکے کیا کوئی گھر بیٹھتا ہے ؟ کہ روزی اس کے منہ میں آوے گی۔ وہاں تورات دن دوڑے دوڑے پھرتے ہیں اور صفتِ غفوریت پر اتنا یقین کہ اعمالِ صالحہ چھوڑ کر گناہوں پر دلیر ہیں۔ یہ محض حماقت اور دھوکا نہیں تو کیا ہے۔ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بدون عمل کے جنّت کو طلب کرنا گناہوں میں سےایک گناہ ہے اور اُمیدِ شفاعت رکھنا بے سبب وبے علاقہ ایک قسم ہے فریب کی۔ اور رحمت کی اُمید رکھنا بغیر عمل واطاعت جہالت وحماقت ہے۔حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بدون نیک اعمال کے آرزو اور اُمیدیں رکھنا یہ احمقوں کی وادی ہے، ایسی باطل اُمیدوں سے شیطان نے ان لوگوں کو بے وقوف اور بے عمل بنا رکھا ہے ۔ بعض نے کہا دَانَ نَفْسَہٗ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اعمال کا محاسبہ روز کرے۔ اگر اچھے اعمال ہوں تو شکر کرے، بُرے اعمال ہوں تو توبہ کرے اور تلافی کرے ۔ قبل اس کے کہ قیامت کے دن حساب ہو۔ ------------------------------