رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
ترجمہ:حضرت عبید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوشخصوں کے درمیان اُخوّت کرادی تھی ( یعنی بھائی بھائی بنادیا تھا ) ان میں سے ایک شخص اللہ کی راہ میں مارا گیا اس کے بعد دوسرا بھی ایک ہفتہ یا قریب ایک ہفتہ کے بعد (اپنے بستر پر ) مر گیا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس شخص کے جنازے کی نماز پڑھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ تم نے نماز میں کیا پڑھا ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم نے اس کے لیے دعا کی کہ اللہ اس کو بخش دے اور اس پررحم فرمائے اور اس کو اس کے ساتھی کے پاس پہنچادے ( جو شہید ہوا ہے )۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا :اس کی وہ نماز کہاں گئی جو اس نے اپنے ساتھی کے شہید ہونے کے بعد پڑھی اور وہ عمل کہاں گیا جو اس نے اس کے بعد کیا، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ فرمائے کہ اس کے وہ روزے کہاں گئے جو اس کے بعد اس نے رکھے ہیں۔ ( یعنی جب تم نے شہید کے برابر مرتبے پر پہنچنے کی دعا اس کے لیے کی ہے تو اس کے ان اعمال کا ثواب کیا ہوا یعنی اس کا مرتبہ شہید سے زیادہ ہے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنّت کے اندر ان دو شخصوں کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ اس فاصلے سے زیادہ ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان ہے۔ تشریح:مرادیہ ہے کہ دوسرے شخص کا درجہ شہید سے زیادہ ہوا بوجہ اس کے اعمالِ صالحہ کے جو اس نے کیے اس کی شہادت کے بعد، لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ شہادت کا درجہ تو بہت زیادہ ہے اور اعمال سے خصوص جو جہاد کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا ۔ جواب یہ ہے کہ دوسرا شخص بھی مرابط تھا، یعنی جہاد کی سرحد پر نگہبانی کرتا تھا اور نیت شہادت کی رکھتا تھا پس اپنی نیت کے مطابق جزا دیا گیا۔ 111۔وَعَنْ اَبِیْ کَبْشَۃَ الْاَنْمَارِیِّ اَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ ثَلٰثٌ اُقْسِمُ عَلَیْھِنَّ وَاُحَدِّ ثُکُمْ حَدِیْثًا فَاحْفَظُوْہُ فَاَمَّا الَّذِیْ اُقْسِمُ عَلَیْھِنَّ فَاِنَّہٗ مَانَقَصَ مَالُ عَبْدٍ مِّنْ صَدَقَۃٍ وَّلَا ظُلِمَ عَبْدٌ مَّظْلِمَۃً صَبَرَ عَلَیْھَا اِلَّا زَادَہُ اللہُ بِھَا عِزًا وَّلَا فَتَحَ عَبْدٌ بَابَ مَسْئَلَۃٍ