رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت |
ہم نوٹ : |
|
ترجمہ:حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے جسم کے کسی حصے کو ( یعنی میرے دونوں مونڈھوں کو پکڑا جیسا کہ حسب ِ عادتِ شریفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کرتے وقت پکڑتے ) اور فرمایا: تو دنیا میں اس طرح رہ گو یا تو ایک مسافر ہے بلکہ تو راہ کا گزرنے والا ہے اور اپنے آپ کو ان مُردوں میں سے شمار کر جو قبروں کے اندر ہیں۔ تشریح :اس حدیث میں اَوْ معنیٰ میں بَل کے ہے اور بَل ترقی کے لیے آتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مسافر تو کہیں کچھ دیر یا کچھ دن کے لیے ٹھہر بھی جاتا ہے لیکن راستہ عبور کرنے والا تو کسی چیز سے دل نہیں لگاتا۔ مطلب حدیث شریف کا یہ ہے کہ جس طرح موت کے سبب تمام تعلقاتِ دنیا سے علیحدگی ہوجاتی ہے اہل وعیال ، اولاد ، رشتہ دار، دوست ، آشنا، مکان ، کاروبار سے اسی طرح مومن زندگی ہی میں دل کو حق تعالیٰ کی محبت سے اس طرح معمور کرتا ہے کہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے الگ رہتا ہے ؎ جہاں میں رہتے ہوئے ہیں جہاں سے بیگانے بلاکَشانِ محبت کو کوئی کیا جانے اختر دور باش افکارِ باطل دور باش اغیارِدل سج رہا ہے شاہِ خوباں کے لیے دربارِ دل ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی اور خود کو اور تمام اہل وعیال اور دولت ومکان وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کی ملکیت سمجھتا ہے۔ نہ تو اس کے ہونے سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ خدا کو بھول جاوے اور ان کے لیے حرام اور ------------------------------