ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
|
حضرت مولانا محمد حسین بہاری، حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی، مرشدی حضرت مولانا سیّد اَسعد مدنی، حضرت مولانا سیّد انظر شاہ کشمیری رحمہم اللہ، حضرت صاحبزادہ مولانا محمدسالم قاسمی، صاحبزادہ مولانا محمد اسلم قاسمی مد ظلہم اور کتنے ہی گمنام حضرات کی کوششیں شامل رہیں۔ میرے جد امجد حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحب نور اللہ مرقدہ فرمایا کرتے تھے کہ اجلاس صد سالہ کے موقع پر مدرسہ عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا، دیوبند کے ہندو اور سکھ تک مدرسہ دیکھنے آئے اُن کی خواتین نے بھی مدرسہ دیکھا انہیں کہتے سنا گیا کہ ہمارے ہاں اتنا بڑا مدرسہ اور ہم نے کبھی اِس طرف توجہ نہ کی ! ! اتنی جمعیت کے ساتھ یہ حضرات کام کر رہے ہیں بہت متاثر ہوئے حتی کہ غیرمسلم خواتین نے مدرسہ دیکھنے کے دوران اپناپہنا ہوا زیور اُتار کر درسگاہوں میں رکھ دیے جسے مدرسے کی نذر کر دیا گیا اور اس کو فروخت کر کے رقم مدرسے میں جمع کردی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ صد سالہ اجلاس حضرت حکیم الاسلام کا کارنامہ تھا لیکن بعض بزرگوں کاخیال اس اجتماع سے پہلے بھی یہ تھا کہ یہ اجلاس نہ بلایاجائے نظر لگ جائے گی اور اَلْعَیْنُ حَقّ حدیث شریف میں آیا ہے ان بزرگوں میں نمایاں دو نام ہیں : ایک مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد شفیع صاحب اور دوسرے محدث العصر حضرت مولانا سیّد محمدیوسف بنوری اجلاس کے بعد مدرسہ ٔ دیوبند کو واقعی نظرلگی مگر اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا اور اُس کے بد اثرات بالآخر زائل ہوئے والحمد للہ۔ حضرت حکیم الاسلام نے اس قضیے کے زمانے میں ٩ اگست ١٩٨٢ء کواپنا استعفیٰ مجلس ِ شوریٰ کو پیش کر دیا جو اُن کی اصل تحریر میں چھپا تھا، اس کے بعد مجلس ِ شوریٰ کے ایک رکن اور بجنور کے رئیس فاضلِ دیوبند حضرت مولانا مرغوب الر حمن صاحب مہتمم مقرر ہوئے ،حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کے انتقال پرپاکستان کے صاحب ِقلم اُستاد زادہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے ایک تعزیتی مضمون لکھا جو اخبار روزنامہ'' اسلام '' ١ اور ماہنامہ'' نصرة العلوم'' گو جرانوالہ میں شائع ہوا تھا جس میں ------------------------------ ١ روزنامہ اسلام ٥محرم ١٤٣٢ھ/١٢دسمبر ٢٠١٠ء