ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
نے استفسار کیا کہ اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ درخواست گزار کے گھر سپاہ صحابہ کے لوگوں کا آنا جانا ہے اور سپاہ صحابہ کا کون سا انتہائی مطلوب شخص ان کے گھر ٹھہرا، اس پر ڈی او اٹک سی ٹی ڈی نے کہا کہ میرے پاس اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سخت اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ '' مساجد کے خادم اور مؤذنوں کا اِس قوم پر جو احسان ہے اُس کا بدلہ پوری قوم مل کر بھی انہیں نہیں دے سکتی، مساجد کے خادم اورمؤذن میرے اور آپ کے لیے مساجد کے فرش صاف کرتے ہیں، بیت الخلائیں دھوتے ہیں، آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے کہ مساجد سے وابستہ لوگوں کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالتے ہیں، آج تک کسی شرابی، چرسی، جوئے اور فحاشی کے اڈے چلانے والوں کا نام بھی فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا، اس ملک کو تو اب ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' بھی کہتے ہوئے شرم آتی ہے،اگر آپ لوگوں میں اتنی ہمت ہے تو مساجد کے خادموں اورمؤذنوں کا نام فورتھ شیڈول میں ڈالنے کے بجائے کالعدم جماعت سپاہ صحابہ کے بڑے لوگوں کو صرف ہاتھ تک بھی لگاکر دکھائیںوہ لوگ تو آپ کی حفاظت میں رہتے ہیں، جو لوگ مساجد کو آباد کرتے ہیں صرف اُن کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا جاتا ہے۔ '' بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی و صوبائی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ درخواست گزار کا نام فورتھ شیڈول سے نکالتے ہوئے اِن کا شناختی کارڈ اور بینک اکائونٹ بھی بحال کریں۔'' (روزنامہ نوائے وقت ١٧جنوری ٢٠١٧ئ)