ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
|
ف : یہ حدیث پاک سندًا صحیح ہے اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ اکٹھی دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیںاور تینوں واقع ہو جاتی ہیں،دیکھا جائے تو اس حدیث پاک کا ہر جملہ اکٹھی تین طلاق کے وقوع کی مستقل دلیل ہے چنانچہ پہلا جملہ ہے '' رَجُل طَلَّقَ امْرَأَتَہ ثَلٰثَ تَطْلِیْقَاتٍ جَمِیْعًا '' ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں،اگر اکٹھی دی جانے والی تین طلاقیں ایک ہی طلاق ہوا کرتی تو حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کو یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ ایک شخص نے اکٹھی تین طلاقیں دیں، دوسرا جملہ ہے ''فَقَامَ غَضْبَانًا'' کہ آپ غصے سے اُٹھ کھڑے ہوئے،اگر اکٹھی تین طلاقیں ایک شمار ہوتیں اور رشتۂ زوجیت پر اِس کا کچھ اثر نہیں پڑتا تو اِس پر غصہ فرمانے کی کیا وجہ ہے ؟ جس چیز کا لغوی یا شرعی وجود ہی نہیں اُس پر ناراضگی کا اظہار فرمانے کے کیا معنٰی ؟ ناراضگی کے اظہار کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاقوں سے عورت فوری طور پر نکاح سے نکل گئی اور رجوع کا وہ حق فوت ہو گیاجو وقفے وقفے کے ساتھ طلاق دینے کی صورت میں مل سکتا تھااور اس طرح اکٹھی تین طلاق کا اِقدام شریعت کی دی ہوئی رعایت کو پسِ پشت ڈال کر اپنے آپ کو ندامت اور پشیمانی میں مبتلا کر دینے کے مترادف ہے جس پر آپ کو غصہ آنا فطری امر تھا۔ یاد رہے کہ اکٹھی تین طلاق کا معاملہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اِس موقع پر دیگر اَحادیث بھی ذکر کر دی جائیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دورِ رسالت میں بھی اکٹھی دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی تھیں اور اِس سے بیوی ہمیشہ کے لیے شوہر پر حرام ہو جاتی تھی اِ لّا یہ کہ وہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ اُسے صحبت کے بعد طلاق دے دے اِس صورت میں وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوتی تھی۔ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ حَدَّثَنِیْ عُرْوَةُ بْنُ الزُبَیْرِ اَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَخْبَرَتْہ' اَنَّ رِفَاعَةَ الْقُرَظِیَّ طَلَّقَ امْرَأَتَہ فَبَتَّ طَلَاقَھَا فَتَزَوَّجَتْ بَعْدَہ عَبْدَالرَّحْمٰنِ بْنَ الزَّبِیْرِفَجَائَ تِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ