ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2017 |
اكستان |
|
رائے ہے جس کے مقابل تمام فقہائے اسلام کی تصریحیں موجود ہیں کہ داڑھی کی مقدار کم از کم ایک مشت ہونی چاہیے توآیا مودودی صاحب کی رائے قابلِ اعتبار ہوگی یا تیرہ سو برس کے مستند علماء اور فقہائِ مذاہب کی ؟ ٭ (ثالثًا) اگر آپ نے یہی اصول رکھا کہ ہزار بارہ سو برس کے بعد آنے والے ایک نیم تعلیم یافتہ کی جوکچھ رائے ہووہ پرانے کامل العلم اور معتبر علماء کی رائے اور روایات سے اُونچی شمار کی جائے توپھرتمام دین ہی کو سلام کرنا پڑے گا۔ اِس دورِ فتن وغلبہ ٔ ہواو ہوس وعُجب و تکبر، خود پسندی و خودرائی میں نہ صرف ادھورے علم والے بلکہ بڑی بڑی سندوں والے بھی ایسے ملیں گے کہ اپنی خواہشاتِ نفسانی کے لیے تمام متقدمین کے دفتروں کے دفتروں کو اَساطیر الاولین ١ اور بکواس کہہ کرٹھکرا دیں گے اور اپنے غلط سے غلط افکار کو سب سے اُونچا بتلا کرلو گوں کو اِس طرف بلائیں گے ،گزشتہ معتمدین اہلِ تقوی اور اہلِ علم کی تمحیق ٢ اور تجہیل ٣ کریں گے اور اپنے آپ کو سب سے زیادہ مفکر سب سے زیادہ محقق بتائیں گے۔ داڑھی کے متعلق مندرجہ ذیل اُمور پر غور فرمائیں : (١) قرآن شریف میں مذکورہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہاکہ ( یَابْنَی اُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَلَا بِرَأْسِیْ ) ٤ ''میری ماں کے بیٹے میری داڑھی اور میرا سر مت پکڑ۔'' اگر حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی قبضہ (مشت) سے چھوٹی ہوتی تو حضرت موسٰی علیہ السلام کس طرح پکڑ سکتے تھے ۔ (٢) جنابِ رسول اللہ ۖ اپنی داڑھی کاخلال وضو کرتے وقت کیاکرتے تھے یعنی داڑھی کے بالوں میں جبڑوں کے نیچے سے اُنگلیاں ڈال کرپانی پہنچایا کرتے تھے، ترمذی میں ہے : ------------------------------ ١ پرانوں کی فرسودہ باتیں ٢ احمق قرار دینا ٣ جاہل قرار دینا ٤ سُورۂ طہ : ٩٤