یہ جب ہے کہ ان آیات کے وہی معنی تسلیم کرلیے جاویں جو آپ فرماتے ہیں، اور اگر دوسری توجیہ کی جاوے جیسا کہ مفسرین محققین نے کی ہے، اور وہ توجیہ آپ کی تاویلات سے زیادہ بعید نہیں، اس وقت استدلال ہی صحیح نہیں، جو اب کی کیا حاجت ہے، دوسرے یہ کہ ریل وتار برقی اور فوٹو گراف اور ٹیلیفون اور فون اور خاک وبلا کیا کیا ایجاد ہوا ہے، آپ انصاف س فرمائیے کہ اگر یہ چیزیں کسی نے نہ دیکھی ہوں، اور آپ کا قاعدہ کہ خلافِ عادتاً محال ہے، اس کے نزدیک مسلّم ہو تو وہ ان چیزوں کے وجود کا اس قاعدہ سے انکار کرے گا یا نہیں، ضرور انکار کرے گا، پس اگر وہ قاعدہ صحیح ہے تو آپ کو بھی ان چیزوں کا انکار ضروری ہے، بلکہ صانعِ عالم کا ماننا ضروری نہ ہوگا، اگر ان چیزوں کا وجود مسلّم ہے تو قاعدہ سے دست بردار ہونا ضروری ہے۔
اگر یہ شبہ ہو کہ یہ چیزیں تو مستند (الی الاسباب) ہیں، اور معجزہ تو بلاسبب ایک فعل ہو جاتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسبابِ دنیاویہ اختیاریہ للعباد میں انحصار اسباب کا کسی دلیل سے ثابت ہونا چاہیے، حق تعالیٰ کی مشیت اور حکم کتنا بڑا سبب ہے، اس کے سبب ہونے میں کیا خرابی عقلی ہے؟ پس ثابت ہوا کہ انبیا سے معجزہ ہر قسم کا صادر ہونا ممکن ہے، پھر کیوں نصوص کی تاویل کی جاوے؟ یہی حال دوسری تحقیقاتِ جدیدہ کا ہے کہ اکثر اس میں مخدوش اور مبنی برتخمین وتقلید ہیں، البتہ اگر کوئی دلیلِ عقلی ایسی ہو کہ اس کے تمام مقدمات برہانی ہوں، یا مشاہدہ صحیحہ ہو، جس میں احتمال غلط فہمی کا نہ ہو، اور پھر کوئی نص ظاہراً اس کے مخالف معلوم ہو، اس وقت اس نص میں تاویل مناسب ضرور ہے، مثلاً: نصوصِ قرآنیہ سے ید اور وجہ وغیرہ حق تعالیٰ کے لیے ہونا ظاہراً معلوم ہوتا ہے، اور دلیلِ قطعی سے انتفائے اجزا ثابت ہے، ان لفظوں میں البتہ تاویل کی گئی، اور تاویل میں بھی یہ شرط ہے کہ موافق قواعدِ عربیہ وشرعیہ ہو، ورنہ وہ تحریف ہے، آپ کی تاویلات اولاً بلا ضرورت جیسا اوپر بیان ہوا۔ ثانیاً قواعدِ عربیہ کی پابندی نہ قواعدِ شرعیہ کی، پہلے علما نے بھی ملاحدہ کے جواب دیے ہیں، مگر اس طرح کہ اول ان کی تحقیقات کو منہدم کیا، اور جس تحقیق کو بالکل صحیح پایا، اس جگہ مناسب تاویل کی۔
اسی جگہ سے معلوم ہوگیا کہ آپ نے جو اکثر احادیثِ نبویہ کو غیر معتبر ٹھیرایا ہے اس کی بھی کوئی دلیل نہیں، اگر دلیلِ مخالفت دلیلِ عقلی ہے تو معلوم ہوچکا کہ دلیلِ عقلی سے مراد دلیلِ قطعی ہے نہ کہ دلیلِ وہمی، ورنہ اس دلیلِ عقلی کی تعیین مشکل ہو جاوے گی، پس کون بعض عقل کو اس کا معیار قرار دیں گے، کیوں کہ عقول میں تفاوتِ فاحش ہے، پھر ہر شخص کی عقلی تحقیق جدا ہوگی، اور سب کو صحیح ماننا پڑے گا، اس میں تو اجتماعِ نقیضین والتقائے ضدین1 لازم آوے گا، مثلاً: بطلیموس اور فیثا غورس حرکت وسکون زمین وآسمان میں مختلف ہیں، افلاطون وارسطو حدوث وقدومِ ارواح میں متخالف ہیں، پھر ایک کی تحقیق تو ضرور غلط ہوگی، ہر گاہ تحقیقِ عقلی کی غلطی بھی ممکن ہوئی تو آپ کو کیسے وثوق ہوا کہ آپ کی عقلی