بھی بے فائدہ، البتہ کوئی معقول بات اگر معلوم ہو جاوے گی تو دوسروں سے کہہ دیا جاوے گا، مگر اصلاح اس کو سمجھوں گا جس میں کسی حکمِ شرعی کی مخالفت لازم نہ آوے، ورنہ وہ سراسر فساد ہے۔
اور یہ جو لکھا ہے کہ مسلمان عنقریب ڈوبنے والے ہیں، سو قدیم علومِ دینیہ کی بدولت تو آگے ہی چل کر ڈوبیں گے، مگر علومِ دنیویہ کی بدولت تو مدت ہوئی ڈوب چکے۔ جس تعلیم کی بدولت مدت سے ڈوب چکے ہوں وہ بے تکی ہے، یا جس سے آگے ڈوبے جانے کا دعویٰ ہے، خواہ صحیح دعویٰ ہو یا غلط، کس کو بے تکی کہنا زیادہ زیبا ہے، تفتیشِ آزادی کے ساتھ کچھ مضائقہ کی بات نہیں، مگر حق طلبی اور انصاف شرط ہے۔
والسلام
تحریراتِ مذکورہ کا نافع ومؤثر ہونا
بحمدہ تعالیٰ ان جوابات نے اس عزیز کے قلب میں اچھا اثر کیا، بعد چندے تیسرا خط آیا، جس میں یہ عبارت درج تھی: (سابق میں جو نامہ دربارہ معتقدات صادر ہوا تھا میں اس کو حرف بحرف اپنے عقیدے کے موافق پاتا ہوں۔ الحمد للہ! کوئی بات خدشے کی نہیں۔)
عرضِ مولف (زاد مجدہ)
واقعی جب قلب میں انصاف ہوتا ہے، اور دل سے حق کی طلب ہوتی ہے، حق بات ضرور اثر کرتی ہے۔ دوسرے حضراتِ عقلا سے بھی اس قسم کے شبہات اتفاقاً پیش آگئے ہیں۔ امید ہے کہ ان جوابات میں منصفانہ نظر کرکے اپنے قلب کو کدورات وظلماتِ شبہات سے پاک کرلیں گے۔ والسلام علی من اتبع الہدی
۵؍ جمادی الاخری