جاویں؟ مگر بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر کوتۂ اندیشی اور پست حوصلگی اس قدر آگئی ہے کہ ان کی نگاہ ہی اوپر نہیں جاتی۔
دسویں شبہے کی تقریر: میری تو اب یہاں تک شامت آگئی ہے کہ میں ان مدارسِ عربیہ پر اعتراض کرتا ہوں، اور ان کو بہ حیثیتِ موجودہ کارِخیر نہیں سمجھتا، اور اس کے ساتھ الحمد للہ کہ مسلمان ہوں، اور اپنے اللہ سے قوی امید ہے کہ مجھ کو مسلمان رکھیں گے۔
اب سنیے کہ میں مدارسِ عربیہ پر کیا اعتراض رکھتا ہوں، قرآن کے احکام کے موافق آپ کے اوپر پہلے اپنے اقارب، پھر پڑوسی، پھر شہر والے، پھر ملک والے، پھر ابن السبیل کے حقوق ہیں، اب آپ ان مدارس کو دیکھیں کہ ان سے کس کو نفع پہنچتا ہے، ہمارا یہ کام نہیں کہ جو آیا اس کو پڑھا دیا، بلکہ یہ کام ہے کہ وہ مفید طرز اختیار کریں جس سے ہمارے بھائیوں کو نفع پہنچے۔
مجھے ایک صاحب ملنے آئے جو علما کے بڑے معتقد ہیں، اور ہمیشہ علما کی خدمت میں حاضر رہتے ہیں، اور بڑی خدمت کرتے ہیں، میرا خیال ان کے طرز سے یہ ہے کہ انھوں نے زیارتِ عُلما کو اپنے روز مرہ میں داخل کر رکھا ہے، میں نے ان سے سوال کیا کہ وضو میں کے فرض اور کے سنت ہیں؟ حالاں کہ انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ ستائیس برس سے نماز پڑھتے ہیں، لیکن بے چارے اس کا جواب نہ دے سکے، تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ مہینے میں ایک آدھ مرتبہ تو کسی مولوی سے ملتے ہوں گے، انھوں نے کہا کہ جناب میں تو روزانہ حاضر ہوتا ہوں، تو میں نے پوچھا کہ بھلا تم کو کسی نے یہ بتلایا کہ وضو میں کے فرض اور کے سنت ہوتے ہیں؟ اگر کہیں سفر میں ہو اور صرف پاؤ بھر پانی ملے تو وضو کیسے کرے؟ غرض میں نے ان کو بتلایا، اور چند مسائل اور بتلائے تو انھوں نے نہایت شکر گزاری کے ساتھ یہ تسلیم کیا کہ مجھ کو عالموں کی صحبت سے اتنا نفع نہیں ہوا جتنا آپ کی چند باتوں سے ہوا، میں اس مثال سے اپنی تعریف کرنا نہیں چاہتا، بلکہ علما کی حالت کا اظہار آپ پر کرتا ہوں کہ ان کی حالت قابلِ اصلاح ہے، اگر یہ درست ہوں گے تو ہم لوگ خود بخود ٹھیک ہو جاویں گے۔
نصابِ تعلیم پر آج سے دس برس پہلے کوئی اعتراض نہ تھا، اور بڑے بڑے عالم گذر گئے، کبھی آپ نے کسی کی زبان سے سنا کہ عربی کا نصابِ تعلیم ناقص ہے، اور اس میں اوقات ضائع ہوتی ہیں، یا مدارسِ عربیہ کے اندر لوہار بڑھئ کا کام سکھلانا ضرور ہے، یہ نئے علما جو اس وقت پیدا ہوئے ہیں، ان کو البتہ یہ بات سوجھی ہے۔ جنابِ من: علمائے موصوفین کے ہم عصر اگر کوئی موجود ہوں گے تو ان کو ان اعتراضات پر جو اس وقت کے علمائے نصابِ دین پر کررہے ہیں ویسا ہی اعتراض