توحید کی نعمت ہم کو ہمارے پیغمبر نے تعلیم فرمائی، اور آپ کی بدولت یہ نعمتِ عظمیٰ ہم کو میسر آئی، لہٰذا میں ان کو نبی برحق جانتا ہوں۔ رہا یہ کہ وہ اللہ کے معشوق ہیں، اور انھیں کی وجہ سے کائنات پیدا ہوئی، اور اللہ تعالیٰ اور پیغمبر میں صرف ایک میم کا فرق ہے، یہ میرے عقیدے نہیں ہیں، میرا آپ کا عقیدہ وہی ہے کہ جیسا قرآن میں ہے {قُل اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ}1 یہاں تک متعلق ایمان کے ہے جو بحمد اللہ میں اپنا درست پاتا ہوں، اور اس کا سوائے میرے اللہ کے کوئی واقف کار نہیں ہوسکتا۔
بیسویں شبہے کی تقریر: آگے وہ چیز لیجیے جس کا نام دین ہے، پانچ وقت کی نماز کا حکم لیجیے کہ اللہ کی کیا کیا مصلحتیں ہیں، ان کو استدلالی طور پر سمجھا ہوا ہوں، اور جانتا ہوں کہ اس سے بہتر طریقہ اپنے خالق کی عبادت اور شکر گزاری کا نہیں ہوسکتا، اور ہر شخص کو اس کا پابند رہنا چاہیے۔
اکیسویں شبہے کی تقریر: حج اور زکاۃ میں مجھ کو کوئی خدشہ نہیں، البتہ روزوں میں دو ایک باتیں شبہ کی ہیں، وہ یہ نہیں کہ اس کے فرض ہونے میں کوئی شک ہے، بلکہ رمضان کی تخصیص میں، سومَیں کوشش کررہا ہوں کہ اس کی بابت میرا اطمینان ہو جاوے، میں مخالف راہ کو مستحکم کرنا نہیں چاہتا، بلکہ موافق کو۔
بائیسویں شبہے کی تقریر: اب رہ گیا لباس وغیرہ اس کی طرف تو میرا کبھی ایک لمحے کے لیے بھی خیال نہیں جاتا کہ اس کو بھی کچھ ایمان یادین یا مذہب میں کچھ دخل ہے، جب ہم سچے دل سے عقائدِ اسلامی رکھتے ہیں، بس دنیا میں ہم کو معزز ہوکر رہنا چاہیے، اور اس کے لیے جو طریقہ مناسب ہو استعمال کرنا چاہیے، بشرطے کہ وہ مخلِ عقائدِ اسلامیہ نہ ہو، میں انگریزی کپڑے پہننا بمقتضائے زمانہ صرف اتنا ہی ضروری سمجھتا ہوں جیسا کہ پیشاب پاخانہ کی حاجت، یعنی آدمی یہ کوشش کرتا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو پاخانہ سے نکلوں، یہی حال میرا ہے کہ گھر واپس آن کر ایک لمحہ بھی گوارا نہیں ہوتا کہ اس لباس میں رہوں۔