ہے، اور جب کہ سفر ومرض میں بھی نہ ہو تو یہ جرأت کس طرح ہوسکتی ہے، خدا کے لیے اس کو ترک کرنا چاہیے، اس طرح نماز بالکل ذمے رہتی ہے، اور جتنی نمازیں اس قسم کی پڑھی ہیں تخمینہ کرکے ان کی قضا کرنا چاہیے۔
اس کے بعد معذرت نسبتِ اظہار شبہات کے لکھی ہے، یہ آں عزیز کی صلاحیت وسعادت مندی ہے، ورنہ مجھ میں نہ طبابت کی لیاقت ہے نہ علاج کی قابلیت، مگر محض خیر خواہی ودل سوزی سے جو کچھ بھی فی البدیہہ میں آیا لکھ دیا۔ اگر اب بھی کوئی شبہ ہو تو بے تکلف پیش کیا جاوے، مگر جو بات ہو مربوط ہو، غیر مربوط مضامین سے کلام، پھر اس کا جواب بہت طویل ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہوئی اس تقریر کے بڑھ جانے کی کہ اکثر مضامین مدعائے اصلی سے محض زائد تھے، اور یوں جیسے مضامین ہوں گے انشاء اللہ تعالیٰ برابر جواب دوں گا، اور جو مجھ کو معلوم نہ ہوگا اور کسی عالم کا پتہ بتلا دوں گا، اگر آں عزیز کو طلبِ حق دل سے ہوگی اور اپنی رائے میں احتمال غلطی کا ہوگا، تو انشاء اللہ تعالیٰ حق واضح ہو جاوے گا، اور میں صرف یہی جواب نہیں لکھا، بلکہ برابر دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ غلطی سے نجات بخش کر ہدایت حق کی فرماوے، اللہ تعالیٰ قبول فرماویں۔
اس کے بعد جو نوکری کے متعلق استفسار کیا ہے، عزیزِ من! وہ ایک فرع ہے، مقدم درستی اصول کی ہے، اس لیے میں نہ ابھی اس نوکری کو جائز کہوں نہ ناجائز، بعد تشفی واصلاحِ اصول کے انشاء اللہ تعالیٰ جو کچھ اس میں میری تحقیق ہے ظاہر کروں گا، چندے مجھ کو مہلت دی جاوے، اور امورِ اختلافیہ کا فیصلہ کرلیا جاوے۔
سترہویں شبہے کا جواب: سب کے آخر میں جو شبہ خصوصیت بعثتِ حضرت سرورِ عالم ﷺ کا واسطے اصلاحِ عرب کے لکھا ہے، اس سے رونگٹے کھڑے ہوگئے (یہ نہ سمجھیں کہ بس یہ جواب ہوگیا، جواب تو آگے لکھتا ہوں، مگر یہ اظہار ہے ایک طبعی حالت کا) عزیز من! یہ عقیدہ یہود کا تھا، جس کی تردید قرآن وحدیث میں صاف صاف مذکور ہے، اور حضور کا عامہ خلائق کی طرف مبعوث ہونا منصوص ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا}۔
اور ارشاد ہوا ہے:
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَO}۔
اور حضور نے ارشاد فرمایا ہے:
بعثت إلی الخلق کافَّۃ۔1