اتباعِ شریعت ہے کچھ تعلق نہیں ہے، نہ آج تک کسی نے ان امور کو خلافِ شریعت کہا، پھر خواہ اس کی کچھ ہی وجہ ہو، بلکہ اگر ہم سستی وکاہلی ہی کو اس کا سبب قرار دیں لیں، جیسا کہ مقصود سوال کا ہے تب بھی ہم کو اپنے اصلی دعوے سے کہ اتباعِ شریعت واجب ہے، دست بردار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، اس لیے اس میں گفتگو کرنا محض لاحاصل ہے۔
پانچویں شبہے کا جواب: اس کے بعد مقاصدِ اسلام سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے، یہ اور زیادہ تعجب انگیز بات ہے، اسلام کے احکام ومقاصد تو اس قدر مشہور ومعروف ہیں کہ شاید مخالفین، ہندو؛ منکرینِ اسلام بھی اس کو جانتے ہوں، گو کسی وجہ سے نہ مانتے ہوں۔
چھٹے شبہے کا جواب: رہا یہ امر کہ جس چیز کی طرف مسلمانوں کو بلایا جاتا ہے وہ اس سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ عزیزِ من! یہ شامت مسلمانوں کی ہے کہ اپنے مالکِ حقیقی کے احکام سے ایسے اجنبی ہوگئے ہیں تو کیا ان کی حالت متغیر ہو جانے سے اسلام کو چاہیے کہ اپنی حالت متغیر کر کے لامذہبی کا نام اسلام قرار دے دے، جس سے وہ مسلمانوں میں ضرور شمار کیے جاویں1 یاد رکھنا چاہیے کہ احکامِ اسلام کی اس قدر کافی تکمیل ہوچکی ہے کہ قیامت تک اس میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا، جو کوئی اس کو مانے گا نجات ہوگی، نہ مانے گا خسرانِ ابدی میں مبتلا ہوگا، اگر تعلیمِ احکام کے لیے یہ بھی ضرور ہے کہ لوگوں کے حالت سے اس کو بہت بعد نہ ہو تو پیغمبر ﷺ وجمیعِ انبیا ؑ طوفانِ بے تمیزی کے زمانوں میں بت پرستی کو روکنے کیوں تشریف لائے تھے؟ حضرت نوح ؑ بنصِ قرآنی ساڑھے نو سو برس تک اسی دُھن میں لگے رہے، اور کبھی یہ خیال نہ فرمایا نہ من جانب اللہ ان کو حکم ہوا کہ تم ایسی چیز کی طرف کیوں بلاتے ہو جس سے وہ کوسوں دور نکل گئے ہیں، کفار کے نہ ماننے سے یہ نہ ہوا کہ اس کلمۂ توحیدی میں تخفیف ورعایت ہوجاتی، بلکہ منکرین کو عذابِ طوفان میں مبتلا کیا گیا، قرآن مجید کے صاف الفاظ میں یہ قصہ مذکور ہے، پھر اس وقت میں اگر ایسی ہی بے تمیزی عام ہو جاوے تو کیا علما کو واجب یا جائز ہوگا کہ احکام میں تحریف کردیں؟ یا برابر اظہارِ حق کیے جاویں۔
ساتویں شبہے کا جواب: اور یہ جو لکھا ہے کہ جو باتیں ہمارے علمائے دین تعلیم کرتے ہیں، زمانہ موجود کی موافق ذلت اور