الحمد للّٰہ رب العالمین، والعاقبۃ للمتقین، والصلاۃ والسلام علی رسولہ سیدنا محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
بعد حمد وصلاۃ! کے احقر نے مخاطبِ عزیز کی تمام تر تقریر کو کئی بار دیکھا۔ چوں کہ مثل اظہارِ مرض کے تشخیصِ مرض وتعیینِ اسباب میں بھی معالج کو شرم کرنا مضر ہے، اس لیے ضرور ٹہرا کہ آزادی کی ساتھ کلام کیا جاوے، اس لیے اولاً اجمالی طور پر اسباب کو متعین کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جہاں تک تقریرِ مذکور کو دیکھا، اور پڑھا معلوم ہوا کہ منشا ان خیالات کا صرف دو امر ہیں: اول: علمِ شریعت میں مہارتِ کاملہ نہ ہونا۔ دوسرے: لامذہبوں کی تقریریں اور تحریریں سننا اور دیکھنا۔
اس لیے علاجِ کلی تو یہ ہے کہ بقدرِ فرصت کسی قدر توجہ کر کے کم ازکم ترجمۂ قرآن مجید و’’مشکاۃ شریف‘‘ کے بعض ابواب اور فقہ کی ایک پوری کتاب کسی سمجھ دار آدمی سے پڑھ لیا جاوے، اور مدعیانِ تحقیق وتہذیبِ جدید کی تقریرات وتحریرات سمع وبصر تک نہ آنے دیا جاوے۔ اور جزئی علاج یہ ہے کہ تقریرِ مذکور کے جواب کو جس کو بعد اجمالِ ہذا کے تفصیلی طور پر لکھنا چاہتا ہوں بغور وانصاف خالی الذہن ہو کر دیکھا جاوے، اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ سب شبہات دفع ہو جاویں گے، اور اصلاحِ عقیدہ توفی الفور اور اصلاح عمل بتدریج حاصل ہو جاوے گی۔ اب وہ جواب تفصیلی سننا چاہیے۔
پہلے شبہے کا جواب: سب سے اول مخاطب عزیز نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ جس نگاہ سے شریعت اور اتباعِ شریعت کو ہندوستان میں علمائے دین دیکھتے ہیں وہ شرائطِ اسلام نہیں ہیں۔ اور اس کو تاریخی دلائل سے جس سے انقلاب اقوام کا معلوم ہوتا ہے ثابت کیا ہے۔ مقامِ انصاف ہے کہ جن لوگوں کی تمام عمر ایک علم کی تحصیل وترقی میں گزر گئی ان کی نگاہ جب قابلِ اعتبار نہیں تو ایک مورخ کی نگاہ احکامِ شریعت کی تحقیق میں کس طرح لائقِ اعتماد ہوگی؟ پھر یہ کہ عالمِ دین تو اپنے ہر دعوے کے اثبات کے لیے قرآن مجید کی آیات اور حدیث شریف کی روایت جو اللہ ورسول کا کلامِ صادق ہے پیش کریں، اور مورخ صرف اپنی رائے اور قیاس سے استدلال کرے، پھر بھی عالم کا قول معتبر نہ ہو، اور صاحبِ رائے کی رائے کو ترجیح ہو، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اہل الرائے کی نظر سے ابھی جمالِ شریعت محجوب ہے، اور جس قدر پیشِ نظر ہے وہ محض ایک ناخن ہے، لیلی رابچشمِ مجنون باید دید کا یہی مطلب ہے، میں صرف اسی مجمل انصاف پر قناعت نہ کروں گا، بلکہ اس تاریخی دلیل