احکام اس قدر مختصر کیوں کر ہوسکتے ہیں؟ اس کی تصدیق کے لیے ایک ہفتہ یا ایک ماہ کسی فتوی نویس عالم کے خطوط کو دیکھا جاوے، ممکن ہے کہ اس میں بعض فضول سوال بھی ہوں، ان کو منہا کرکے ضروری سوالات جو روز مرہ پیش آتے ہیں، منتخب کرکے ان ہی اردو کی کتابوں اور قرآنِ مجید کے رکوعِ صوم میں ان کے احکام ڈھونڈے جاویں، تب اس دعوی کی صحت یا غلطی معلوم ہو، اور یوں بلا تجربہ ومشاہدہ جو کچھ کہا جاوے قابلِ التفات نہیں۔
آں عزیز نے دس برس پر تعجب کیا، جس کا نام کمالِ علمِ دین ہے وہ تو پچاس برس میں بھی خاطر خواہ میسر نہیں ہوتا، میری اس قدر عمر اس خدمت میں گزری ہے، مگر اب تک یہ مسئلہ مجھ کو معلوم نہیں، اور نہ کسی کتاب میں اب تک مجھ کو ملا، اور روز مرہ واقع ہوتا ہے کہ مسافر امام کے سلام کے بعد جب مقتدی کھڑا ہو کر نماز پوری کرے تو یہ تو معلوم ہے کہ فاتحہ نہیں پڑھتا مگر
قومہ میں سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ یا رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہے یا نہ کہے، بھلا کسی اردو کی کتاب یا قرآن مجید کے کسی رکوع میں سے یہ مسئلہ نکال تو دیا جاوے، اور اگر رائے سے جواب دیا جاوے تو ہر شخص کی رائے معتبر نہیں، جس شخص نے تمام اصول وفروع ودلائل ونظائر کو احاطہ کیا ہو اسی کی رائے بھی قابلِ اعتبار ہوسکتی ہے، سو یہ احاطہ سالہا سال میں جاکر نصیب ہوتا ہے، اب بتلاؤ کہ دس برس زائد ہیں یا کم۔
چودہویں شبہے کا جواب: اس کے بعد جو مسجد کا رستہ لینے والوں پر عیب لگایا ہے، سو جس نے مسجد تحصیلِ مال کے لیے سنبھالی، بہت بُرا کیا، شریعت اس کو بھی لتاڑتی ہے، اور اگر عبادت وعلم کے لیے ایسا کیا، اور رزق کو اللہ تعالیٰ کے ذمے سمجھا تو کیا برائی کی؟ حضورِ اقدس ﷺ نے بعدِ نبوت اگر مسجد نشینی نہیں کی تو کیا کیا؟ اور صحابہ سے ہدایا اور تحائف کیا قبول نہیں فرمائے؟ اور کیا آپ کو قرآن مجید میں یہ نہیں فرمایا:
{وَاْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَاط لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًاط نَحْنُ نَرْزُقُکَ} الآیۃ1 پھر اس میں عیب کیا ہوا، ساری بات یہ ہے کہ جو شخص ظاہراً ٹیب ٹاپ سے رہتا ہے اس کے عیوب بھی موجبِ تحقیر نہیں ہوتے۔ اور جو شخص مسکنت غربت سے رہتا ہے اس کے ہنر بھی باعثِ تذلیل ہوتے ہیں۔ قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد نشینوں کے فتوحات جو من جانب اللہ عنایت ہوتے ہیں جس قدر لوگوں کی نظر میں حقیر وذلیل ہیں، کیا کسی بڑے عہدے دار کی رشوت کی کمائی اس قدر نظر میں حقیر اور ذلیل ہے؟ ہرگز نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ ثروت کا کفر وفسق نظر میں نہیں چھبتا، اور غریب مسلمانوں کی دین داری واطاعتِ خداوندی بے قدری کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے، انا للہ۔