کام دے سکتا ہے، اس بات کا یقین آپ صرف اس صورت میں کرسکتے ہیں کہ آپ مجھ کو سچا آدمی خیال فرمائیں، ورنہ بلا تجربہ کے اس کا یقین ہونا مشکل ہے۔
پتلون اور پاجامہ میں جو فرق سواری کے اندر ہے وہ تجربے پر موقوف ہے، اس کا بیان کرنا مشکل ہے، پہلے لوگوں کا اگر حوالہ دیا جاوے تو میں نصابِ تعلیم کا حوالہ دوں گا، میرا لباس یوں نہیں تبدیل ہوگا، بلکہ اس کی ترکیب یہ ہے کہ کوئی شخص ایسا ہی کام کرکے دکھلاوے، اور پاجامہ انگاچوغہ دوپٹہ پہنے، اور اگر وہ کامیاب ہو تو میں قسم کھاتا ہوں کہ فوراً لباس تبدیل کردوں گا۔
عبادات میں روزہ میں رکھتا ہوں، زکوٰۃ دیتا ہوں، حج کا ارادہ ہے، اللہ تعالیٰ پورا کرنے والے ہیں، نماز جماعت کی تو کیا پابندی! وقت سے بھی ادا نہیں ہوتی۔ صبح کی نماز پہلے سے قضا پڑھتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ برا کرتا ہوں، اور اس کی اصلاح میں کوشش کررہا ہوں۔
سولہویں شبہے کی تقریر: لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے پیغمبرِ خدا ﷺ نے تاکید وقت کی فرمائی ہے، لیکن امام شافعی صاحب نے جمع بین الصلوتین کا ایک خاص موقع پر فتویٰ دیا ہے۔ اور حضرت ابوداؤد صاحب نے صرف لوگوں کے حرج ہونے پر جمع صلوٰۃ کا ذکر کیا ہے۔ میں اخیر میں پھر اس قدر بیان کرتا ہوں کہ یہ عریضہ میں نے تین بجے رات کو لکھنا شروع کیا، اوراڑھائی
گھنٹے میں ختم کیا، لیکن اس میں ایک لفظ بھی میرا آوردہ نہیں ہے، قلم سے یوں ہی نکلتا چلا گیا۔ میں اس کو پڑھ کر دیکھتا ہوں تو اس کا بھیجنا داخلِ گستاخی سمجھتا ہوں۔ لیکن صرف ایک خیال مجھ کو اس کے بھیجنے پر مجبور کرتا ہے، وہ یہ کہ طبیب کے سامنے اپنا مرض بیان کرنا داخلِ گستاخی نہیں ہے، مثلاً: کسی شخص کے سامنے اپنے اعضائے نہانی کھولنا سخت بے جا ہے، لیکن اگر کسی کے کوئی پھوڑا ایسے مقام پر نکل آوے تو بلا تأمل حکیم صاحب کو دکھلاتا ہے، اور اگر حکیم کو دکھلانے میں یہ شخص اتنا ہی تأمل کرے جتنا کہ معمولی طور پر عام آدمیوں سے کرتا تھا، تو نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ زخم اندر ہی اندر سڑکر ناسور کرلے گا، اور اس شخص کی جان جاتی رہے گی۔
میرا عقیدہ اور میرے خیالات جیسے کچھ ہیں ان کو صرف اس نظر سے پیش کرتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو میری اصلاح کیجیے، اور اگر میری اس پریشان تحریر میں آپ کے نزدیک کوئی کام کی بات ہو تو للہ اُس پر توجہ کیجیے، وقت ایسا نازک ہے کہ مسلمان تباہ ہوتے چلے جاتے ہیں، اور ان کی کوئی خبر نہیں لیتا، اللہ تعالیٰ نے آپ کے کلام میں اثر دیا ہے۔ اگر آپ کے