اکیسویں شبہے کا جواب: اس کے بعد جو تخصیصِ رمضان میں شبہ کیا ہے کہ
’’میں اطمینان کی کوشش کررہا ہوں‘‘۔
معلوم نہیں اطمینانِ شرعی مراد ہے یا عقلی، اگر اطمینانِ شرعی مراد ہے تو دلائلِ شرعیہ قطعیہ قرآن وحدیث میں اس پر قائم ہیں، پھر بے اطمینانی کے کیا معنی؟ اور اگر اطمینانِ عقلی مراد ہے تو میں اس کا ضابطہ ابھی بیان کرچکا ہوں کہ فروع کا ثابت بدلائلِ عقلیہ ہونا ضرور نہیں۔
بائیسویں شبہے کا جواب: اس کے بعد جو لباس کو مذہب یا دین سے بے تعلق لکھا ہے سو دین سے مراد اگر ارکانِ دین ہے تو بیشک وہ ارکانِ دین میں داخل نہیں، مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ احکام سے بھی خارج ہو، اور اگر احکامِ دین مراد ہے تو اس کو دین سے تعلق نہ ماننا محض غلط ہے۔ حدیث میں صاف صاف الفاظ میں بہت لباسوں کی ممانعت مع وعید کے وارد ہے، پھر احکام ہونا کس کو کہتے ہیں، پھر یہ جو لکھا ہے کہ بمقتضائے زمانہ انگریزی لباس پہنتا ہوں، اگر کسی وقت مقتضائے زمانہ یہ ہوکہ نماز نہ پڑھیں تو کیا نماز کو بھی خیر باد کہنا جائز کہا جاوے گا؟ اگر کسی وقت یہ مقتضائے زمانہ ہو کہ کلمہ نہ پڑھیں تو کلمہ بھی ناجائز ہو جائے گا؟ البتہ ضرورتِ شدید کی وجہ سے کبھی تخفیف ہو جاتی ہے، سو جب تک کہ ضرورتِ شدید کا اثبات نہ ہو جواز کی گنجائش نہیں۔
تیئیسویں شبہے کا جواب: بچے کی تعلیم کی نسبت جو رائے قرار دی ہے بہت خوب ہے، مگر اس کے ساتھ اتنی رعایت ضروری ہوگی کہ ان علوم دنیوی کو ذریعۂ اکتسابِ نامشروع کا نہ بنایا جاوے۔
چوبیسویں شبہے کا جواب: اس کے بعد لکھا ہے کہ:
’’مسلمانوں کی تعلیم کی اگر اصلاح منظور ہو تو دنیوی معلومات سے مدد دوں‘‘۔
عزیز تمنا ہے کہ اصلاح ہو۔ مگر قدرت نہ ہونے سے کون ذمہ داری کرے، جب اصلاح نہیں کرسکتا ہوں تو دریافت کرنا