سب قربان کردی؟ یا ان ظالموں کا قصور قرار دیا جاوے گا جنھوں نے اس عزیز حالت کو موجبِ ذلت وغضب قرار دیا؟ کیا حضراتِ انبیا ؑ کے ساتھ کفار نے کوئی دقیقہ نعوذ باللہ ایذا واہانت کا اٹھا رکھا؟ کیا کھلم کھلا گالیاں نہیں دیں؟ کیا ان کو سنگ بار نہیں کیا؟ پھر انھوں نے ان ہی بہشت اور حوروں کی توقع میں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی تحصیل کے لیے کیوں اس ذلت واذیت کو گوارا کیا؟ افسوس ایسی موٹی بات میں فہیم لوگ غور نہیں کرتے۔
اور اگر قلتِ مال کا نام ذلت ہے تو چاہیے دنیا میں چور وقزاق جو بڑے مال دار ہیں نہایت معزز قرار دیے جاویں، اور ان حرام ذرائع کی نسبت جس میں آمدنی بالکل محدود ہے اس چوری وقزاقی کو ترجیح دی جاوے، چوری وقزاقی اسی لیے موجبِ ذلت ہے کہ قانونی جرم ہے، پھر اگر قانونِ الٰہی کے اعتبار سے کوئی چیز جرم ہو تو اس کو کیوں موجبِ اعزاز قرار دیا جاتا ہے؟ اچھا اعزاز بھی ہوا، لیکن بعدِ مرگ جب کشاکشی ہوگی تو کیا یہ دلائل اس وقت مقبول ومسموع ہوں گے؟ بس بات یہ ہے کہ کسی کو یہاں ذلت وہاں عزت، کسی کو یہاں عزت وہاں ذلت، اب اس میں ہر معتقدِ آخرت فیصلہ کرکے ترجیح دے سکتا ہے۔
آٹھویں شبہے کا جواب: اور یہ کہنا کہ جس طریقے سے علما بتلاتے ہیں دنیا بقدرِ ضرورت بھی حاصل نہیں ہوتی، بالکل غلط ہے، اور اس کے ثبوت کے لیے جو مثال فرض کی ہے کہ ایک شخص کو عالم بنایا، اب وہ کیا کرے إلخ سو اول تو یہ کہتا کون ہے کہ ہر شخص عالمِ اصطلاحی بنایا جاوے، اہلِ تحقیق تویوں کہتے ہیں کہ جس شخص کو اطمینانِ قلب میسر ہو، خواہ کسی ذریعہ ظاہری سے، خواہ قوتِ توکل سے، وہ علمِ دین میں تکمیل کرے، اور عمر بھر خدمتِ دین میں مصروف رہے، اس کے حق میں تو یہ سوال ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ کیا کرے۔ رہ گئے بے اطمینان وحریص وطماع لوگ ان کو چاہیے کہ بقدرِ ضرورت احکامِ دینیہ یاد کرکے اپنی معاش میں مشغول ہوں، اور وقتاً فوقتاً اہلِ علم سے اپنے واقعات وضروریات کے متعلق تحقیق وتفتیش کرتے رہیں، ان کے حق میں یہ سوال معقول ہے کہ کون سا کام کریں، سو یہ تو دل کھول کر بآواز بلند کہا جاوے گا کہ حرام کام نہ کریں، پھر مباح کام میں لوہار وبڑھئ اور تارِ برقی اور ریل سب کام برابر ہیں، اس کو کس نے منع کیا ہے؟ اگر کوئی شخص ان صنائع کی تعلیم کا اہتمام کرے، بڑی خوشی کی بات ہے، مگر ان سب کاموں کے لیے چاہیے۔ روپیہ، جو اصلاح چاہتے ہیں وہ بے زر ہیں، جو زردار ہیں ان کو بجز اس کے کہ مسلمانوں کو وحشی اور بد تہذیب بتلائیں، اور ان کی وحشت اور بدتہذیبی کا علاج دہریت کو بتلائیں، اور کچھ آتا نہیں۔ خیر بہرحال! خواہ اس کا اہتمام کیا جاوے، یانہ کیا جاوے، یہ خلافِ شرع کسی کے نزدیک نہیں۔