نزدیک میں سچ کہتا ہوں تو اس کو سنیے، اور اگر غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجیے، آخر آپ کا ہوں، مجھ کو بچائیں کہ قیامت کے دن فضیحت نہ ہوں، اگر آپ کے نزدیک میری فلاح اس میں ہو کہ میں نوکری چھوڑ دوں تو مجھ کو صاف صاف ہدایت کیجیے، ورنہ میں تو من وعن آپ پر ظاہر کرچکا۔
سترہویں شبہے کی تقریر: اب میں اپنے عیب کھولنے پر آیا تو ایک اور بات بھی لکھ دوں، کیوں شبہ کو اپنے دل میں رکھوں، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آں حضرت ﷺ کو خاص عرب کی اصلاح کے لیے بھیجا تھا، یا ساری دنیا کی اصلاح کے لیے، میرا خیال یہ ہے کہ صرف قومِ عرب کی اصلاح کے لیے، کیوں کہ اس زمانے کے عرب اپنی زبانِ میں بڑے فصیح وبلیغ تھے، ان کے لیے قرآن زبان عربی میں نازل فرمایا، جس سے ان کو یقین ہوگیا کہ وہ کلامِ بشر نہیں ہے، اور ان کو ماننا پڑا، اور تمام عمر جناب پیغمبرِ خدا اسی قوم میں رہے، اور جب ان کی تکمیل ہوچکی آپ نے وفات فرمائی، دیگر اقوام نے آپ کے قرآن کو اس بنیاد پر نہیں مانا تھا جس پر کہ عرب نے مانا تھا۔ بلکہ ان لوگوں کو قومِ عرب نے بزورِ شمشیر زیر کیا، اور ان کو زبردستی مسلمان کیا، انھوں نے آپ سے معجزے طلب نہیں کیے، اور نہ مثلِ عرب کے قرآن پر ایمان لائے۔
فتوحات میں دو اقسام ہوئیں، ایک: وہ جنھوں نے عاجز آکر اور مقابلے کی تاب نہ لاکر اسلام قبول کیا۔ دوسری: وہ جنھوں نے امن مانگی، اور اپنے دین پر قائم رہ کر جزیہ دینا قبول کیا، ان پر دعوتِ اسلام پوری نہیں ہوئی۔ سب سے بڑی بات غور طلب یہ ہے کہ جناب پیغمبرِ خدا ﷺ تمام جہان میں تشریف نہیں لے گئے، اور بہت لوگوں کو اس وقت بھی آپ کے پیغمبر ہونے کی خبر نہیں ہوئی۔ ہندوستان میں اسلام بہت زمانے کے بعد آیا، پھر جو ہندو یہاں رہتے تھے ان کی ہدایت کیا ہوئی؟ اور یہی حال امریکہ اور افریقہ اور بڑے حصہ یورپ اور ایشیا کا تھا، ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرقے کے اندر پیدا کیا، اور اس میں وہ مرگئے۔ فقط
تقریرِ جوابات
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم