ضروریات کی اطلاع دیتے ہیں، اس کا طریق وعظ گوئی ہے، سو دکان دار واعظین تو کسی شمار وقطار میں نہیں، محض جاہل ہیں، ان میں جو خیر خواہ وہمدرد واعظ ہیں ان کے ساتھ حکام ورعایا کی طرف سے جو معاملہ ہوتا ہے بجز انبیا واولیا کے اس کا کوئی متحمل نہیں ہوسکتا، اب کس برتے پر وعظ کہیں، سوائے اس کے کہ ایک گوشے میں بیٹھ جاویں، اور جو ان سے دریافت کرے جواب دے دیں، اور بیٹھے بٹھلائے خطرے میں پڑنا ہر شخص کی ہمت نہیں، نہ عقلاً ونقلاً کوئی اس کا مکلف ہے۔
اس کے بعد علما کی حالت کو اصلاح کے قابل بتلایا ہے، میں اس کا بھی انکار نہیں کرتا، لیکن اگر شامتِ اعمال سے کسی عالم نے اپنی حالت درست نہ کی تو ان کا یہ کہنا تو غلط نہیں ہوسکتا کہ اتباعِ شریعت واجب ہے، ان کے اس قول پر تو عمل کرنا ضروری ہوگا، غایۃ مافی الباب یہ کہ ان سے بھی کہا جاوے گا کہ تم کیوں نہیں عمل کرتے، یہ کیا وجہ کہ ان کی درستی کا انتظام کیا جاوے، اور اس کے بعد اپنی درستی کا وعدہ کیا جاوے، اپنی درستی کے لیے تو ان کا قول کافی ہے، اور اگر فعل ہی کی ضرورت ہے تو کیا تمام علما کے افعال نادرست ہیں؟ پھر ان کی تقلید کیوں نہیں کی جاتی؟ جب درستی کا ارادہ نہیں ہوتا ہزاروں حیلے نکل آتے ہیں، اور عازم درستی کے لیے ہر وقت درستی ممکن ہے۔
دسویں شبہے کا جواب: اس کے بعد ترمیمِ نصابِ تعلیم کو سند کے طور پر لائے ہیں کہ زمانے کے بدل جانے سے احکام بدل جاتے ہیں، اور اس سے کوٹ پتلون کا جواز ثابت کرنا چاہا ہے، عزیزِ من! تمام امور دو قسم پر ہیں، مقاصد اور ذرائع، مقاصد جو شریعت نے مقرر کردیے ہیں، آسمان بدل جائے، زمین بدل جائے، مگر وہ نہیں بدلتے، اور زمانے کے بدلنے سے تو وہ کیا بدلیں گے ان احکام کا بدلنے والا ملحدو زندیق ہوتا ہے۔ رہ گئے ذرائع، وہ اصل میں ان مقاصد کی تحصیل کے لیے ہوتے ہیں، سو ممکن ہے ایک زمانے میں ایک مقصود کسی خاص طریقے سے حاصل ہوتا ہو، اس زمانے میں وہ طریق مطلوب ہوگا، دوسرے زمانے میں وہ مقصود دوسرے طریق سے حاصل ہونے لگا، اس لیے طریقِ اول کو چھوڑ کر دوسرا طریق اختیار کیا، بشرطے کہ دوسرا طریق کسی نص سے ممنوع الاستعمال نہ ہو، اس کی مثال یہ ہے کہ حج مقصود ہے، اور ہوائی جہاز میں سفر کرنا اس کا طریق، اب حج میں تو کسی مصلحت سے تغیر نہیں ہوسکتا، مثلاً: حج ماہِ ذی الحجہ میں ہوتا ہے، کسی شخص کو محرم میں فرصت ہوتی ہے، اس کے لیے محرم میں جائز ہو جاوے، یہ ناممکن ہے، اور طریق میں تغیر ہوسکتا ہے، مثلاً: بجائے ہوائی جہاز کے اب دخانی جہاز چلنے لگا، اب پہلا طریق ترک کرکے دوسرا اختیار کرنا جائز ہے۔
جب یہ قاعدہ سمجھ میں آگیا تو سمجھنا چاہیے کہ تحصیلِ علمِ دین مقصود ہے، اور نصابِ خاص اس کا آلہ اور ذریعہ، کسبِ حلال مقصود ہے، حرفت اور صنعت اس کا آلہ، سو زمانے کے بدلنے سے اگر نصابِ تعلیم بدل دیا جانا جائز ہو تو اس سے مقاصد کی