تیئیسویں شبہے کی تقریر: اپنے بچہ کی تعلیم کی بابت جو میرا خیال ہے وہ یہ ہے کہ میں اس کو عربی پڑھاؤں، اور ختمِ قرآن پر اس کو قادر کردوں، اس کے بعد علومِ دنیوی اس کو سکھلاؤں، اگر ان سب باتوں پر بھی آپ کو میری طرف سے کچھ خدشہ ہو تو میں کچھ عرض نہیں کرسکتا۔ اب دوسری بات یہ ہے کہ مجھ کو مسلمانوں کی تعلیم پر جو مدارسِ عربیہ میں دی جاتی ہے سخت اعتراض ہے۔ اگر آپ کو اس کی اصلاح منظور ہو تو اس میں تحریر کا سلسلہ جاری رکھیے، میں اپنی معلوماتِ دنیوی سے آپ کو اس میں مدد دوں گا۔
چوبیسویں شبہے کی تقریر: میں سچ کہتا ہوں کہ مسلمان عنقریب ڈوبنے والے ہیں، اور بہت قریب ہے وہ زمانہ کہ مسلمانوں کا دین اور دنیا دونوں غارت ہوا جاتا ہے، اور یہ نتیجہ ہوگا اسی بے تکی تعلیم کا جو اس وقت مسلمانوں کو دی جاتی ہے، میں نے جو کچھ اپنے عقیدے میں تزلزل ظاہر کیا ہے میں اس کو واقعی اچھا سمجھتا ہوں، کیوں کہ یہ تزلزل میری تفتیش کا باعث ہے، اور جس آزادی کے ساتھ میں نے اس کو عرض کردیا ہے اس طرح کا بیان منافقت سے دور ہے۔
۲۸؍ جون ۱۹۰۱ عیسوی
جوابِ ناصح
اٹھارہویں شبہے کا جواب: مجھ کو توقفِ خط سے قلق ضرور تھا، سو بحمد اللہ تعالیٰ آج وہ رفع ہوگیا۔
انیسویں شبہے کا جواب: توحید ورسالت کے متعلق اپنے جو عقائد لکھے ہیں وہ نہایت صحیح ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر قائم رکھیں۔ البتہ رسالت کے متعلق ایک بات تصریح سے رہ گئی، وہ یہ کہ اگر آپ کی رسالت وبعثت کو عام مان لیا ہے تو