ونفرت دل میں رکھی جاوے، اس طرح ضرورت بھی رفع ہوگئی، او رزیادہ مخالفت بھی شریعت کی نہ ہوئی، اس لیے کہ الضرورات1 تبیح المحظورات خود مسئلہ شرعیہ ہے، مگر اس کے ساتھ الضروري یتقدر بقدر الضرورۃ بھی حکم ہے، یعنی ضرورت سے جس چیز کی اجازت ہوئی ہے وہ حدِ ضرورت تک جائز ہوگی، مثلاً ضرورۃ مبحوث فیہا میں اگر صرف پتلون سے ضرورت رفع ہو جاوے تو کوٹ جائز نہ ہوگا، جب صرف سواری کے وقت احتیاج ہے غیرِ وقت میں جائز نہ ہوگا، جب صرف استعمالِ بدنی کی حاجت ہے دل سے اس کو پسند کرنا جائز نہ ہوگا۔ دوائی تلخ جو بضرورت استعمال کی جاتی ہے، کیا اس سے کوئی دل سے خوش ہوتا ہے؟ اگر وہ مکروہِ طبعی ہے تو یہ مکروہِ شرعی ہے، پھر اس میں کراہت ونفرت نہ ہونے کی کیا وجہ؟ اس طرح اگر استعمال ہو تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ عفو ہو جاوے۔
اور اس میں بھی بدون اس بات کے کہے رہا جاتا نہیں کہ اگر حاکمِ ضلع بالمشافہہ کسی خاص شخص کو بلاکر قطعاً کوٹ پتلون سے ممانعت کردے اس وقت یہ عذر جو بمقابلۂ حکمِ شرعی کے پیش کیے ہیں حاکمِ مذکور کے روبرو پیش کرنے کی مجال ہوسکتی ہے، بھلا! حاکمِ حقیقی کے احکام کو اقل درجہ حاکمِ مجازی کے برابر تو سمجھنا چاہیے۔
سولہویں شبہے کا جواب: اس کے بعد جمع بین الصلوتین کا مسئلہ ذکر کیا ہے۔ عزیزِ من! اسی لیے علما کوشش کرتے ہیں کہ دینیات کا علم کافی ہونا ضرور ہے، ورنہ علمِ ناتمام سے خود رائی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی ؒ سے یہ تو تحقیق کرنا چاہیے کون موقع پر فتویٰ دیا ہے؟ اور وہ موقع آں عزیز کو پیش آتا ہے یا نہیں؟ بتلاؤ: یہ قیاس اور رائے محض نہیں تو کیا ہے؟ افسوس ہے کہ کسی حاکم کے قانون میں بلا تحقیق اس طرح یوہی اٹکل قیاس کرکے کوئی عمل کرسکتا ہے، کوئی لفظ بھی مشتبہ ہوتا ہے تو اس کو جگہ جگہ دکھلاتے پھرتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے، اور
اگر ہر جگہ جدا مطلب معلوم ہو تو جس میں سب سے زیادہ احتیاط ہو اس پر عمل کرتے ہیں۔ اور احکامِ خداوندی میں ایسی بے باکی کہ فتویٰ دوسرے موقع کا، اور اس کو جاری کرلیا اور جگہ، خیال کرنے کی بات ہے کہ بے پروائی کی بات ہے یا نہیں۔
اور ابوداود ؒ نے جو محدث ہیں حدیث نقل کردی۔ محدث کا کام نقل کردینا ہے، اس کا سمجھنا اور احکام میں تطبیق دینا یہ کام فقہا ومجتہدین کا ہے، سو تمام امت کا اس پر اجماع ہے (اور اجماع حجتِ قطعیہ ہے مثل قرآن وحدیث کے) کہ بلاسفر ومرض جمع کرنا حرام ہے، اور نماز صحیح نہیں ہوگی، اور سفر ومرض میں بھی امام ابوحنیفہ کے نزدیک جائز نہیں، اور جو نظیر میں نے اوپر قانونِ حکومت پر عمل کرنے کی لکھی ہے وہ اس مسئلہ میں امام صاحب کے قول کو ترجیح دینے کے لیے کافی