تبدیل کا جواز لازم نہیں آتا، اور حرمتِ تشبہ بالکفار مقاصدِ شرعیہ میں سے ہے، قرآن وحدیث میں یہ مسئلہ مذکور ہے، سو جب تک کسی امر میں تشبہ رہے گا، وہ کسی زمانے کے بدلنے سے نہیں بدل سکتا، البتہ اگر کسی وقت میں کسی وجہ سے تشبُّہ ہی نہ رہے تو اب بوجہ اس کے کہ قانونِ تشبُّہ سے خارج ہوگیا، مباح ہوگا، تو باوجود اس تفاوت کے کوٹ پتلون کو نصابِ تعلیم پر کس طرح قیاس کرنا صحیح ہے۔
گیارہویں شبہے کا جواب: اور وہ کون سی بات ہوگی جس کو علما دس برس پہلے حرام بتلاتے تھے، اور اب اس کے جواز پر فتویٰ دیے جاتے ہیں، اگر وہ ذرائع میں سے ہے تو اس کی تبدیل کا قاعدہ ابھی معلوم ہوچکا ہے، اور اگر وہ مقاصد میں سے ہے تو اس میں ایسی تبدیل کوئی نہیں کرسکتا، اور اگر کسی نے ایسا کیا ہو، اس کی غلطی ہے، کسی کی غلطی سے قواعدِ شرعیہ نہیں بدل سکتے، عجب نہیں کہ تعلیمِ انگریزی اس سے مراد ہو تو جان لینا چاہیے کہ اس کو جس نے ممنوع کہا تھا یا اب بھی کہہ رہا ہے، نہ صرف زبان کی وجہ سے، بلکہ جو مفاسد اس کے ساتھ فی الحال مقرون ہوتے ہیں، یا آیندہ چل کر ہو جاتے ہیں، سو واقع میں ان مفاسد کو حرام کہنا مقصود ہے، سو وہ اب کون عالم ہوگا جس نے ان مفاسد کے جواز پر فتویٰ دے دیا ہوگا!
بارہویں شبہے کا جواب: اس کے بعد علما پر گوشہ نشینی کا الزام لگایا۔ عزیزِ من! آپ کو خبر نہیں جس پیغمبر (روحی فداہ) کا ہم کلمہ پڑھ رہے ہیں، اور آپ کی تصدیق ومحبت کو جزوِ ایمان سمجھتے ہیں، اور واقع میں یہی ہے۔ آپ نے اس زمانے کی علامات بیان فرماکر بڑی تاکید اور زور سے مشورہ دیا ہے کہ گوشے میں پڑکر، بلکہ جنگل میں کسی درخت کی جڑ دانت سے پکڑکر اپنی جان دے دو۔ اور فرمایا ہے کہ:
’’وہ ایسا زمانہ ہوگا جس میں صبح کو مسلمان، شام کو کافر، اور صبح کو کافر، شام کو مسلمان‘‘
یہ حال ہو جاوے گا۔ اور فرمایا کہ:
’’جب تم دیکھو کہ ہر شخص اپنی حرص کی اطاعت کرتا ہے، اور خواہشِ نفسانی کی پیروی کرتا ہے، اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے، اور ہر شخص اپنی رائے کو پسند کرتا ہے۔ توبس تم اس وقت اپنا دین سنبھالو، اور عوام سے تعرض مت کرو‘‘۔
عزیز من! ان علامات سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ زمانہ یہی ہے، پھر علما نے کیا برا کیا جو گوشہ اختیار کیا۔
جو لوگ گوشوں سے نکل نکل کر ان فتنوں میں گھستے ہیں اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو قوتِ ولایت عنایت فرمائی ہے تب تو خیر وہ