مقام اخلاص و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ادا نہیں کرسکتے۔ اے خدا !اس گناہ چھوڑنے پر جو غم ہوا، اگر ساری کائنات کی خوشیاں اس غم کو سلامی پیش کریں تو اس غم کی عظمت کا حق ادا نہیں کرسکتیں۔ گناہ کے بدلے قید خانہ قبول کرنے کا اعلانِ نبوت دیکھو! حضرت یوسف علیہ السلام زبانِ نبوت سے اعلان کرتے ہیں کہ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ 12؎ اے خدا !آپ کے راستے کا قید خانہ مجھے محبو ب ہی نہیں اَحَبّْ ہے یعنی جس گناہ کی طرف یہ عورتیں مجھے بلارہی ہیں، اس گناہ کے کرنے سے مجھےقید خانہ میں قید ہوجانا زیادہ محبوب ہے۔ یہاں پر ایک علمی اشکال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یَدْعُوْنَنِیْ جمع مؤنث کا صیغہ کیوں استعمال فرمایا، جس کے معنیٰ ہوئے کہ جس طرف یہ سب عورتیں مجھے بلارہی ہیں جبکہ بلانے والی صر ف زلیخا تھی۔ بیان القرآن میں حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا ہے کہ چوں کہ مصر کی تمام عورتیں حضرت یوسف علیہ السلام کو ورغلانے میں شامل تھیں اور چاہتی تھیں کہ یوسف علیہ السلام زلیخا کی تمنا پوری کردیں تو چوں کہ ان عورتوں نے گناہ کی تائید ومدد کی، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے زلیخا کے ساتھ ان مشورہ دینے والیوں کو بھی شامل کرلیا، اس لیے کہ گناہ کا مشورہ دینے والا اتنا ہی بڑا مجرم ہے جتنا بڑا مجرم خود اُس گناہ کا کرنے والا ہے۔ حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ یَدْعُوْنَ جمع کا صیغہ اس لیے نازل ہوا کہ زنانِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو مشورہ دیا تھا اور ان سے سفارش کی تھی کہ زلیخا کی خواہش پوری کردیجیے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ جس بُرائی کی طرف یہ عورتیں مجھے دعوت دے رہی ہیں اس سے بہتر مجھے وہ قید خانہ ہے جس کی مجھے دھمکی دی گئی ہے۔ الٰہ آباد میں ۱۹۷۶ء میں میں نے اپنے ایک وعظ میں کہا کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی شان محبوبیت ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کتنے پیارے ہیں کہ جن کی راہ کے قید خانے تک محبوب ہوں تو اُن کی راہ کے گلستان کیسے ہوں گے؟ میری اس بات پر وہاں موجود ندوہ کے علماء بھی جھوم اُٹھے تھے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ؎ _____________________________________________ 12؎یوسف: 33