مقام اخلاص و محبت |
ہم نوٹ : |
|
پس آپ اپنے رحم وکرم سے ہماری سوءِ قضا کو حسنِ قضا سے تبدیل فرمادیجیے۔ (آمین) مجاہد ہ کی پہلی تفسیر ہے: اَلَّذِیْنَ اخْتَارُواالْمَشَقَّۃَ فِی ابْتِغَاءِمَرْضَاتِنَا یعنی جو ہماری رضا اور ہماری خوشیوں کو تلاش کرنے میں مشقت اٹھاتے ہیں۔ مجاہدہ کی دوسری قسم دوسری تفسیر ہے: اَلَّذِیْنَ اخْتَارُواالْمَشَقَّۃَ فِیْ نُصْرَۃِ دِیْنِنَا جو ہمارے دین کو پھیلانے میں نصرت کرتے ہیں۔ بعض لوگ تنہائی میں بڑی عبادت کرتے ہیں لیکن دین کی اشاعت میں مدد نہیں کرتے، جیسے ہم لوگ صیانۃ المسلمین کے جلسے پر آئے تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ہم نے دین کے اجتماع میں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھادی۔ حدیث شریف میں آتا ہے مَنْ کَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَھُوَمِنْھُمْ 14؎ یعنی جو کسی قوم کی تعداد بڑھائے گا اس کا شمار ان ہی میں سے ہوگا، لہٰذا یہ بھی ایک قسم کی نصرت ہے۔ جن کے پاس مال ہے وہ مال خرچ کریں ،جن کے پاس جان ہے وہ جان خرچ کریں، جن کے پاس علم ہے وہ علم خرچ کریں اور جن کے پاس یہ سب چیزیں ہیں وہ یہ سب خرچ کریں۔ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے فرما یا کہ مولوی حضرات کو بھی خیرات کرنا چاہیے، چاہے ایک دو روپیہ ہی کیوں نہ ہو، اگر ایک ہزار روپیہ تنخواہ ہے تو ایک روپیہ تو دے سکتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کی عادت تو ڈالو، ہمیشہ لیتے ہی رہنے سے عادت بگڑ جاتی ہے۔ مولوی روپیہ لینا تو جانتا ہے دینا نہیں جانتا۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ مولوی صاحب دوسروں کی چائے تو پیتے ہیں اور جزاک اللہ کہہ کرچلے آتے ہیں اور جب ان کے یہاں جاؤ تو کچھ بھی نہیں کھلاتے پلاتے جبکہ معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو بخیل نہیں بنایا۔ _____________________________________________ 14؎کنزالعمال:22/9(24735)،باب فی الترغیب فیھامن کتاب الصحبۃ،مؤسسۃ الرسالۃ