مقام اخلاص و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کہا کہ مولانا! آج آپ کو کوئی ہاتھ چومنے والا نہیں ملا تو اپنا ہاتھ خود ہی چوم رہے ہو۔ توبہ توبہ! اتنی زبردست عادت پڑی ہوئی ہے کہ بغیر ہاتھوں کا بوسہ لیےآپ کو چین ہی نہیں آتا۔ بزرگ نے کہا ظالم !تیری اس بدگمانی کا کیا علاج ؟ تو پوچھتا تو سہی کہ میں کیوں چوم رہا ہوں؟ میرے دل میں خیال آیا کہ اے خدا ! آپ تو دیکھنے کو ملتے نہیں۔ جب بیٹے کو ابا کا خط ملتا ہے اور ابا دیکھنے کو نہیں ملتا تو خط کو چومتا ہے، باپ کی تحریر کو چومتا ہے ۔ تو میرے ان ہاتھوں پر یہ میرے اللہ کی تحریر ہے، یہ انگلیاں میرے اللہ نے بنائی ہیں، میں ان انگلیوں کو چوم رہا ہوں ،یہ میرے اللہ کی بنائی ہوئی انگلیاں ہیں، یہ ان کی تحریر ہے، یہ ان کا خط ہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اللہ والوں سے بدگمانی مت کیجیے، اس سے آدمی سخت گھاٹے میں پڑجاتا ہے۔ بتائیے! کہاں بزرگ کا خیال اور کہاں اس آدمی کا خیال؟ وہ تو ہاتھ اس لیے چوم رہے تھے کہ میرے مالک کے بنائے ہوئے ہیں، صانع کو نہیں دیکھا تو مصنوع یعنی اُن کی بنائی ہوئی چیز ہی کو چوم لوں۔ سبحان اللہ! اور سُبُلَنَا کی بھی دو تفسیریں ہیں لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَ السَّیْرِ اِلَیْنَا یعنی ہم تم کو سَیْرْ اِلَی اللہْ عطا کریں گے، تم ہم تک پہنچ جاؤ گے۔اور دوسری تفسیر ہے سُبُلَ الْوُصُوْلِ اِلٰی جَنَابِنَا 20؎ اس کے بعد تم کو اپنی بارگاہ سے واصل کرلیں گے جس کو واصل باللہ کہتے ہیں، یعنی ہماری بارگاہِ الوہیت میں تمہارا داخلہ ہوجائے گا، تو سَیْرْ اِلَی اللہْ بھی تم کو ملے گی اور وُصُوْلْ اِلَی اللہْ بھی ملے گا۔ یہ علامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ کی تفسیر ہے۔ اب بتائیے! تصوف تفسیروں کی کتابوں میں ہے یا نہیں؟ دیکھیے! یہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ ہیں جن کی تفسیر ساری دنیا کے مولوی پڑھا رہے ہیں، مگر یہی مولوی تصوف حاصل کرنے کے لیے جلدی تیار نہیں ہوتے الّا ماشاء اللہ۔ تفسیر روح المعانی سے منبروں پر چمک رہے ہو، لیکن یہ تو بتاؤ کہ یہ سَیْرْ اِلَی اللہْ اور وُصُوْلْ اِلَی اللہْ کی اصطلاحات کہاں سے آئیں؟ اللہ کے مخلص بندے کون ہیں؟ اِنَّ اللہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان چار قسم کے مجاہدوں کے _____________________________________________ 20؎روح المعانی:14/21، العنکبوت (69)،داراحیاءالتراث،بیروت