مقام اخلاص و محبت |
ہم نوٹ : |
|
تک کہ شیخ کی آہ ، اس کی مناجات، اس کادرد بھر ا دل ،اس کے آنسو، سارے کے سارے مرید اور طالب میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اللہ والوں کے ساتھ رہنے کی مدّت اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں صحبتِ صالحین کے ساتھ ساتھ مجاہدہ کی قید بھی لگائی ہے۔ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ 6؎ کی تفسیر کے ذیل میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ ایک سوال قائم کرتے ہیں کہ یہ جو حکم ہے کہ اللہ والوں کے ساتھ رہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ والوں کے ساتھ کتنا رہو؟ پھراس کا جواب بھی دیتے ہیں کہ اللہ والوں کے ساتھ اتنا رہو لِتَکُوْنُوْامِثْلَھُمْ 7؎ کہ تم بھی ان ہی جیسے ہو جاؤ۔یعنی تمہاری عادات، عبادات اور تقویٰ سب اللہ والوں جیسا ہو جائے۔ علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمہ اللہ نے تیس (۳۰)جلدوں میں قرآنِ پاک کی تفسیر لکھی ہے۔ بغداد کے رہنے والے تھے اور وہاں کے مفتی بھی تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں اتنے غریب تھے کہ چاند کی روشنی میں پڑھا کرتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ کُنْتُ اُطَالِعُ الْکُتُبَ فِیْ ضَوْءِ الْقَمَرِ میں چاند کی روشنی میں مطالعہ کیا کرتا تھا اور امیروں کے بچے مجھ پر ہنستے تھے، وہ گھوڑوں پر بیٹھ کر سواری کرتے تھے اور میرا مذاق اُڑاتے تھے کہ یہ کیا ملّابیٹھا ہو ا پڑھ رہا ہے ۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھ سے روح المعانی لکھوائی تو ان ہی لڑکوں نے مجھے سلام کیا اور میری جوتیاں سر پر رکھیں۔ جب انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کے قصّے کی تفسیر لکھی تو فرماتے ہیں کہ میں نے اُس دریا کا سفر کیا جس دریا میں مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام کو نگلا تھا، میں نے اس دریا کی سیر کی اور اس بات کا مشاہدہ کیا کہ یہاں اتنی بڑی بڑی مچھلیاں ہوتی ہیں جو انسان کو نگل سکتی ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ان اللہ والوں نے دین کے لیے کتنی محنتیں کی ہیں۔ _____________________________________________ 6؎التوبۃ:119 7؎روح المعانی:56/11 ،التوبۃ (119)،داراحیاء التراث، بیروت